ہمارا بیانیہ


شیزو فرینیا ایک بیماری کا نام ہے جس کا مریض اپنے ذہن میں ایک خیالی دنیا آباد کر لیتا ہے اس مرض کے شکار عام طور پر 15 سے 25 سال کی عمر کے نوجوان ہوتے ہیں یہ بیماری فرد سے جب معاشرے میں سرائت کر جائے تو اس کے اثرات تباہ کن ہوا کرتے ہیں۔

ہٹلر کے جرمنی میں گوئبلز نام کا ایک فرد ہوا کرتا تھا جو عام طور پر ناقابل یقین خبر یا واقعے کو افراد کے ذہن میں ڈالتا اور پھر اس خبر کو اس حد تک اچھالنے کا انتطام کرتا کہ لوگ اس پر گفتگو کرنے پر مجبور ہو جاتے۔ گوئبلز نے جرمنی اور ہٹلر کے بارے میں لوگوں میں ایسی ایسی داستانیں پھیلا رکھی تھیں جو بعد میں جھوٹ ثابت ہوئیں۔ البتہ اس عمل کو فن مانا گیا اور سیاست میں اس کا چلن چل نکلا۔ اور اس کے شکار ہمیشہ نوجوان ہی رہے۔

پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کے بارے میں، جب وہ انتخابات میں حصہ لے رہے تھے تو عوام کو بڑی شد ومد کے ساتھ یہ بتایا جاتا تھا کہ یہ شخص بھارتی ایجنسی ”را“ کا ایجنٹ اور ہندو ہے اور اس کا اصل نام گھنسی رام ہے اور پاکستان کے ایک سرکردہ صحافی کا یہ دعویٰ ریکارڈ پر موجود ہے۔

بھارت کے شہر ممبی میں مشہور زمانہ دہشت گردی کے ایک واقعے میں اجمل قصاب نامی دہشت گرد کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس کے بارے میں بھارت سے ہی یہ خبر چلی تھی کہ اس کا تعلق پاکستانی پنجاب سے ہے اور پھر پاکستان میں اس کا گاؤں اور خاندان بھی دریافت ہو گیا مگر اب بھارت ہی سے خبریں آ رہی ہیں کہ ان کا تعلق پاکستان سے نہیں بلکہ بھارت سے ہے۔ اس واقعے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ دور میں میڈیا کا کردار لوگوں کی ذہن سازی میں کس قدرموثر ہے۔ اس واقعے سے ذہن سازی کے لیے میڈیا کے کردار کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ہمارے وفاقی وزیر اطلاعات نے ٹی وی کے ایک پروگرام جرگہ میں کہا عمران خان کو وزیر اعظم بنانے میں میڈیا کابڑا کردار ہے۔

پاکستان میں عمران خان کے وزیر اعظم بننے تک، ٹی وی کھولتے تھے تو مخصوص وقت کے بعد طویل مدت کے اشتہارات چلا کرتے تھے۔ یہ اشتہار بین الاقوامی کمپنیوں کے مقبول عام برانڈ کے ہوا کرتے تھے۔ وہ برانڈ اور اشیاء ا ب بھی موجود ہیں، کنزیومر بھی وہی ہیں مگر چند ماہ سے ٹی وی پر اشتہار غائب ہیں۔

ٹی وی کی آمدن کا بڑا ذریعہ اشتہارات ہی ہوا کرتے ہیں۔ ہمارے وزیر اطلاعات کے مطابق ہماری میڈیا انڈسٹری جو 10 بلین روپے کی تھی اس کو 35 بلین تک لے جایا گیا پاکستان میں اشتہارات کے پیسے کو سیاست کے رخ کی تبدیلی کے لیے استعمال کیا گیا۔ اور اس حقیقت سے ملک کی سیاسی جماعتیں، الیکشن کمیشن۔ ریاستی ایجنسیاں اور خود ٹی وی کی انتظامیہ بھی باخبر تھی۔ مگر بہتی گنگا سے استفادہ نہ کرنا کسی کو بھی گوارا نہ ہوا۔

عمران خان کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد میڈیا سے پچیس بلین روپے کی یہ آمدن یکایک رک جانے کے بعد ہمارے اکثر میڈیا ہاوس مالی بد حالی کا شکار ہو گئے اور بہت سے نام ور اینکر پرسن اور تجزیہ کار میڈیا سے فارغ کیے جا رہے ہیں۔ جس ذہن سازی کے لیے ایک بڑی رقم میڈیا انڈسٹری میں انڈیلی گئی تھی۔ اپنے مقصد میں کامیابی کے بعد اس سرمایہ کاری کو بند کر دیا گیاتو میڈیا انڈسٹری اپنی اصل اوقات پر آجانے کے بعدحکومت کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی ہے ان آنکھوں میں موجود سوال کو حکومت اچھی طرح سمجھتی ہے مگر ان کو میڈیا مینجمنٹ کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ میڈیا ہاوسز کو زندہ رہنے کے لیے خود کو نا پسندیدہ عناصر سے پاک کرنا ہوگا۔

ایک چاہت حکومت کی ہوتی ہے اور ایک چاہت عوام کی ہوتی ہے، پاکستان میں دونوں چاہتیں متوازی چلتی ہیں۔ البتہ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ دونوں چاہتیں ساتھ ساتھ چلیں۔ مگر ایسا بوجہ ہو نہیں پا رہا۔ اور اس کے اسباب میں بڑا سبب ہمارے معاشرے میں موجود تقسیم شدہ رجحانات اور سوچ ہیں۔ اکہتر سالوں میں جب عوام کو موقع ملتا ہے وہ پارلیمان اور وزیر اعظم لے آتے ہیں۔ جب مقتدر اداروں کو موقع ملتا ہے وہ صدارتی نظام کی بساط کی بچھا کر کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔

ہماری نوجوان نسل جس کو بتایا گیا ہے ساٹھ کے عشرے میں پاکستان جرمنی کو قرض دیا کرتا تھا۔ پینسٹھ کی جنگ میں لا الہ الا اللہ کے نعرے نے ہمیں فتح مبین سے ہمکنار کیا تھا۔ اکہتر میں ادھر ہم اور ادھر تم کے سیاسی نعرے نے ہمیں بے دست و پا کر دیا تھا۔ ورنہ ہم نے تو اقوام متحدہ کے ایوانوں میں قراں پاک کی تلاوت کو سربلند کر دیا تھا۔ ہمارا مقام یہ ہے کہ کعبہ میں نماز کے لیے کھڑے ہوں تو امام کعبہ ہمارے لیے اپنا مصلیٰ چھوڑ دیں۔ روس کو افغانستان میں شکست دینے والے ہم ہی ہیں۔ امریکہ کو تگنی کا ناچ ہم ہی نچا رہے ہیں۔ ہم اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہیں وغیرہ وغیرہ

شیزو فرینیا ایک بیماری کا نام ہے جس کا مریض اپنے ذہن میں ایک خیالی دنیا آباد کر لیتا ہے اور اپنے ایقان کی آخری حد تک اس کو حقیقت سمجھ بیٹھتا ہے۔ یہ بیماری فرد سے جب معاشرے میں سرائت کر جائے تو اس کے اثرات تباہ کن ہوا کرتے ہیں۔ یہ بیماری عوام میں ہوا کرتی تھی مگر اب لگتا ہے حکمران بھی اس کا شکار ہو چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).