البیر کامو اور ’دی پلیگ‘


ناموَر فلاسفر، مصنف اور صحافی البیر کامو 1913 عیسوی میں الجیریا کے شہر بونووی میں پیدا ہوئے۔ تب الجیریا فرانس کی زیرِ انتظام نوآبادی تھی۔ اسی وجہ سے کامو نے فرانسیسی زبان میں ادب تخلیق کیا۔ ان کی مشہور کُتب میں ’وبا‘ (The Plague) ، ’اجنبی‘ (The Stranger) ، ’باغی‘ (The Rebel) ، ’زوال‘ (The Fall) اور ’انسان ِاول‘ (The First Man) شامل ہیں جنہیں پوری دنیا میں شہرت ملی۔

سن 1975 میں 34 سال کی عمر میں انہیں ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا اور اس وقت وہ یہ مایہ ناز انعام وصول کرنے والے دنیا کے دوسرے نمبر پر نوجوان ادیب تھے۔ یہ اعزاز پانے والے سب سے کم عمر ادیب رڈیارڈ کپلنگ تھے جنہیں فقط 14 سال کی عمر میں اس اعزاز سے نوازا گیا تھا۔

البیر کاموکی موت چار جنوری 1960 میں ایک کار حادثے کے باعث واقع ہوئی اور ان کی دو کتب ’باغی‘ اور ’انسانِ اول‘ ان کی موت کے بعد شائع ہوئیں۔

ناول ’وبا‘ کے بارے میں آگاہی

البیر کامو نے سال 1941 میں اس ناول کے لئے مواد اکٹھا کرنے کا آغاز کیا جب وہ ٹی بی کی علالت کی وجہ سے ڈاکٹروں کی ہدایات پر الجیریا کے شہر اوران میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ کامو کو یہ شہر بالکل پسند نہیں تھا لیکن بہ حا لتِ مجبوری وہ وہاں ٹھہرنے پر مجبور ہوئے۔ کامو کی دیگر کتب کی طرح یہ ناول بھی ان کی سُستی کی وجہ سے نہایت تاخیر سے پایہء تکمیل تک پہنچا اور آخر کار 1947 میں پورا ہوا۔ ناول کا انگریزی ترجمہ جارج بوس نے کیا ہے جنہوں نے پہلے بھی بہت سی کتب فرانسیسی زبان سے انگریزی میں ترجمہ کی ہیں۔

ناول کی کہانی ایک نہایت ہی بوسیدہ شہر اوران میں مبنی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مصنف نے کہانی کے سال کا ذکر نہیں کیا اور یہ بات اپنے قاری پر چھوڑ دی ہے۔ ناول پانچ حصوں پر مشتمل ہے اور ہر ایک حصہ کہانی کے مختلف پہلوؤں کو نمایاں کرتا ہے اور قاری ناول میں اتنا محو جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ناول کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔

پہلے حصے میں کہانی کے اہم کردار ڈاکٹر ریوز اپنے فلیٹ کی عمارت میں مردہ چوہا دیکھتے ہیں۔ کچھ ہی روز میں چوہوں کے مرنے کی تعداد میں بے پناہ اضافے کے باعث شہری انتظامیہ چوہوں کو جلانے کا انتظام کرتی ہے۔ چوہوں کے مرنے کی تعداد میں کمی آنے لگتی ہے لیکن اس کے بعد یہ وبا انسانوں میں پھیلنے لگ جاتی ہے جس کی وجہ سے شہری خوف و ہراس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ انسانی اموات کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ناول کے ہیرو ڈاکٹر ریوز کے اصرار پر مقامی انتظامیہ لئے گئے اقدامات میں تیزی لاتی ہے لیکن اس کے با وجود بھی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آتے۔ کچھ وقت کے بعد انتظامیہ کو مجبوراً ہنگامی حالات کا اعلان کرنا پڑتا ہے۔

ایسی صورت حال میں وبا سے نمٹنے کے لئے ہر شخص اپنی رائے پیش کرتا ہے۔ لیکن ناول کا ہیرو ریوز ایک ڈاکٹر ہونے کے ناطے اپنا کام اور فرائض برقرار رکھنے اور وباکی مزاحمت کرنے کا تہیہ کرتا ہے۔ کسی دوسرے شہر سے آئے ہوئے رامبرٹ نامی ایک صحافی شروعاتی دنوں میں بیزاری کا شکار ہو کر شہر چھوڑنے کی کوششیں کرتا ہے۔ مسلسل ناکامیوں کے بعد آخر رامبرٹ اپنے ذاتی جذبات پر قابو پا کر شہر چھوڑنے کا ارادہ ترک کر کے وبا بھوگتی ہوئی ایک اجتماعی برادری کا حصہ بن جاتا ہے۔ اخلاقیات میں کامل یقین رکھنے والے ’تارو‘ نامی ایک نوجوان شہری بھی اجتماعی برادری کے لئے جدوجہد کرنے کا پختہ ارادہ رکھتا ہے۔ ’کوتارد‘ نامی ایک جرائم پیشہ شخص پہلے پلیگ کے آگے سر تسلیمِ خم کرتا ہے لیکن بعد میں ڈاکٹر ریوز کی ہیلتھ ٹیم میں شامل ہو کر شہریوں کے لئے کام کرنے کا آغاز کرتا ہے۔

ناول کے دوسرے حصے میں مصنّف شہر میں مقیم مختلف عناصر کے رد عمل دکھاتے ہیں۔ وبا پھیلنے کے باعث مقامی انتظامیہ شہر کے صدر دروازے بند کر کے آنے جانے پر پابندی لگا دیتی ہے جس کے نتیجے میں شہری اپنے عزیز و اقارب سے دور ہو جاتے ہیں۔ صدر دروازے پر چوکیداروں اور شہریوں کے درمیان کچھ جھڑپیں بھی ہوتی ہیں۔ مذہبی رہنما اور پادری وبا سے چھٹکارا پانے کی خاطر مقامی چرچ میں عبادات کا سلسلے کا بھی آغاز کرتے ہیں جس میں بڑی تعداد میں شہری شرکت کرتے ہیں۔

وبا کے پھیلاؤ کی وجہ سے ہر انسان دوسرے سے خوفزدہ رہنے لگتا ہے۔ اس حد تک کے انسان اجتماعی کے بجائے فردی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے سے بات کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔ وباکچھ لوگوں کے لئے ذمیداری اور احساس کا نام ہے تو وہیں پر بہت سے لوگ اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ اس صورٹ حال میں ڈاکٹر ریوز اور اس کی ٹیم وبا سے خاتمے کے لئے سر توڑ کوششیں کرتی رہتی ہے۔

کہانی کے تیسرے حصے میں وبا کو ہر چیز پر حاوی ہوتے دکھایا گیا ہے۔ اموات کی تعداد بڑھنے کے باعث مقامی انتظامیہ مُردوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ کچھ ہی عرصے میں قبرستان میں بھی جگہ کم پڑ جاتی ہے۔ زندہ لوگوں کی توجہ موت سے ہٹ کر دوسرے مسائل مثلاً راشن وغیرہ کی جانب مبذول ہو جاتی ہے۔ شہر کا ماحول اور شہریوں کی زندگی سے وابستہ ہر چیز اور عمل کی وبا کے حوالے سے ہی تشریح کی جانے لگتی ہے۔

چوتھے حصے میں کام کی بہتات کی وجہ سے ڈاکٹر ریوز اور اس کی ٹیم تھکاوٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔ اموات کی تعداد ایک مخصوص نمبر پر پہنچ کر رک جاتی ہے جس کو ڈاکٹر وبا کا عروج کہتے ہیں اور اب چھاتی کے انفیکشن کے باعث لوگوں کی اموات جلد واقعہ ہو جاتی ہیں۔

پانچویں حصے میں تقریباً ایک سال کے بعد وبا کا زور ٹوٹتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے باوجود بھی شہریوں کے اذہان پر نفسیاتی طورپر وبا اتنی حاوی ہو گئی ہے کہ وہ وبا سے نجات ملنے پر بھی یقین نہیں کر پاتے۔ کہانی کے آخر میں ’تارو‘ بھی وبا کے باعث زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

یہ ناول جنگ عظیم دوئم سے تھوڑا عرصہ بعد لکھا گیا اور کہانی میں فرانس پر جرمنی کے قبضے کی جھلک ملتی ہے۔ دراصل یہ ایک بے قابو اور پورے سماج پر غالب آنے والی ایک برائی کی کہانی ہے۔ ایسے حالات میں ہر آدمی اپنے بس اور سمجھ کے مطابق اس برائی کو سمجھتا اور ردِ عمل کرتا ہے۔ کچھ الزام تراشی اور انتقام کے جواز ڈھونڈتے پھرتے ہیں تو کچھ اپنے آپ کو قسمت کے آسرے پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی اثناء میں کچھ ایسے انسان بھی ہیں جو کہ اس برائی کے خلاف مزاحمت کرنے کے ارادے پر سختی سے قائم رہتے ہیں۔

جیسا کہ ناول کا موضوع خالص سیاسی ہے لیکن غیر سیاسی انداز میں لکھنے کے باعث پہلی اشاعت کے وقت مصّنف پر تنقید بھی کی گئی تھی۔ لیکن کچھ عرصے کے بعدکامو کی اس کاوش کو بہت پذیرائی ملی تھی۔ خلاصے کے مطابق یہ کہانی ذمے داری، انصاف، جلاوطنی، جدائی، غصے، انتقام اور آفات کے وقت پر عزم اور مستحکم رہنے کے بارے میں ہے۔

برائی اور آفات کی مزاحمت اور ان سے آخری سانس تک لڑتے رہنا ہی اس ناول کا اہم نقطہ ہے۔ ناول کے ہیرو ڈاکٹرریوز ایک جگہ پر کہتے ہیں کہ ’کوئی پاگل، اندھا یا بزدل شخص ہی اپنے آپ کو وبا کے حوالے کر سکتا ہے‘ ۔ ایک اور جگہ پر ایک کردار کہتا ہے کہ ’سماجی وبا سے ہمیشہ احتیاط سے پیش آنا چاہیے۔ لوگوں کو وبا سے بچانا ان کا علاج کرنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ علاج زیادہ تھکاتا ہے اور انسان کو ہمیشہ مظلوم کی حمایت کرنی چاہیے۔ ‘
یہ ناول ہر سیاسی، ادبی اور سماجی شعور رکھنے والے ہر شخص کو زندگی میں ایک بار ضرور پڑھنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).