سرکل بکوٹ ضلع ایبٹ آباد کے مسائل، ذمہ دار کون؟


خوبصورت اور حسین وادی سرکل بکوٹ جو آٹھ یونین کونسل پر مشتمل ہے جس کی تھوڑی سی مسافت پر صحت افزا مقام نتھیا گلی اور مری واقع ہیں۔ سرکل بکوٹ کا پہاڑی سلسلہ مری اور نتھیا گلی کے ساتھ جا کر ملتا ہے۔ سیر و سیاحت کے اعتبار سے سرکل بکوٹ بھی مشہور ہے ہر سال سیاح بڑی تعداد میں اس علاقے کا رخ بھی کرتے ہیں لیکن اس علاقے میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے وہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کئی بار حکومت کو توجہ دلائی گئی لیکن کوئی بھی اس علاقے کی طرف توجہ نہیں دیتا جو کہ قابل مذمت ہے۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے یہاں کوئی ترقیاتی کام نہ ہو سکا جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔ اس علاقے میں نہ صحت عامہ کی سہولیات ہیں اور نہ ہی ابھی تک اس علاقے میں تعلیمی ایمرجنسی کی لہر پہنچی جس کا دعوی صوبائی حکومت خیبر پختون خواہ کرتی نظر آتی ہے۔ کئی سکولوں میں اساتذہ کی آسامیاں خالی ہیں ان کو ابھی تک تعینات نہیں کیا گیا۔ کئی مقامات پر 2005 کے زلزلے میں سکولوں کی عمارات کو نقصان پہنچا تھا ابھی کئی عمارتوں کی تعمیر مکمل نہیں ہو سکی۔

اس کے ساتھ کئی یونین کونسل میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ اس علاقے میں پانی کی اسکیم کے لیے عوام اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہے ہیں۔ جس کی تازہ مثال بکوٹ میں ہے۔ روڈ کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہے سابق وزیر اعلی پرویز خٹک صاحب نے کوہالہ سے نتھیا گلی روڈ کی مرمت اور کشادگی کا وعدہ کیا تھا جو کہ ابھی تک پورا نہ ہو سکا۔ سرکل بکوٹ ضلع ایبٹ آباد کا پسماندہ ترین علاقہ ہے۔ جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

خدارا پی کے 36 سے صوبائی اسمبلی کے منتخب رکن جناب نذیر عباسی اور مخصوص نشست پر منتخب ایم پی اے محترمہ ملیحہ لودھی صاحبہ اور ایم این اے مرتضی جاوید عباسی صاحب کی توجہ سرکل بکوٹ کے مسائل کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ اب صورتحال یہ ہے بکوٹ میں آر ایچ سی ہسپتال کی عمارت عرصہ 6 سال سے مکمل ہے اور یہ 20 بیڈ کا ہسپتال ہے لیکن سٹاف اور میڈیکل آلات و مشینری فراہم نہیں کی جا رہی جو کہ اعلی حکام کیطرف سے چشم پوشی ہے انتظامی فرائض سے عدم توجہی ہے۔

اس کے علاوہ ڈگری کالج بکوٹ کے زمین بھی حاصل کی گئی تھی اور اس پر سیکشن 4 بھی لگایا گیا تھا لیکن اس پر تاحال کام کیوں نہیں شروع کیا گیا۔ اس منصوبے پر کام ابھی تک رکا ہوا ہے جو کہ پچھلی صوبائی گورنمنٹ نے اس کا اعلان کیا تھا۔ دوسری بات ہسپتال کی ہے سرکل بکوٹ کی یہ حالت ہے ہر یونین کونسل میں بی ایچ یو ہے لیکن اس میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر نہیں ملتا اور نہ ہی دوائی ملتی ہے۔ لوگ بھاری پیسا خرچ کر کے پرائیویٹ ڈاکٹر کے پاس جانے پر مجبور ہیں۔

صوبائی حکومت آر ایچ سی بکوٹ کی منظوری دے تاکہ عوام علاج معالجہ کی سہولیات سے استفادہ حاصل کر سکیں۔ جب مریض شدید بیمار ہو یا زیادہ کیس حاملہ خواتین کے دیکھنے میں آتے ہیں ان کو فرسٹ ایڈ نہیں بھی ملتی لہذا ان کو قریبی شہروں مری، مظفرآباد یا ایبٹ آباد لے کر جایا جاتا ہے کئی مریض تو راستہ میں دم توڑ دیتے ہیں علاقے میں صحت عامہ کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور عوام سراپا احتجاج ہیں۔

یہی حالت تعلیم کی بھی ہے ڈگری کالج نہ ہونے کی وجہ سے ہونہار طلباء اور طالبات کا مستقبل خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ہائر سکینڈری سکول کی تعلیم کے بعد جن طلباء و طالبات کی مالی پوزیشن اچھی ہوتی ہے وہ ایبٹ آباد یا راولپنڈی کا رخ کرتے ہیں اور جو غریب ہوتے ہیں وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ڈگری کالج بکوٹ پر فوری طور پر کام شروع کیا جائے تاکہ سرکل بکوٹ کی عوام کا بھی حق ہے کہ وہ بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں۔

اس کا ذمہ دار کون ہے۔ سرکل بکوٹ کی عوام کا مطالبہ ہے ضلع انتظامیہ ایبٹ آباد، کمشنر ہزارہ ڈویژن، ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد اور صوبائی حکومت خیبر پختون خواہ فوری طور پر نوٹس لے اور سرکل بکوٹ کی پسماندگی اور محرومیوں کا ازالہ کرے۔ جو سرکل بکوٹ کی عوام کا بنیادی حق ہے۔ صحت، تعلیم، روزگار اور صاف پانی اس کے علاوہ روڈ یہ سب بنیادی سہولیات تحریک انصاف کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہیں۔

اس ایجنڈے اور ترقیاتی کاموں کی لہر کو سرکل بکوٹ تک پہنچایا جائے۔ سرکل بکوٹ کی عوام کئی دہائیوں سے ایسی تبدیلی کا انتظار کر رہے ہیں۔ سرکل بکوٹ کے کئی لوگ صحت عامہ، تعلیم اور روڈ، پانی کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ دوسرے شہروں میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ سرکل بکوٹ کی عوام کا اعلی حکام سے مطالبہ ہے سرکل بکوٹ کی پسماندگی دور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ تاکہ شہری بنیادی سہولیات سے مستفید ہوسکیں ٹورازم کے شعبے کو بھی ترقی مل سکے جب بنیادی سہولیات ہوں گی تو سیر و سیاحت کے شعبے کو بھی فروغ ملے گا جس سے علاقہ کے لوگوں کو روزگار ملے گا اور علاقہ ترقی کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).