سیاسی گیم شو


سیاست سے کنارا کشی کا انجام خود سے کم تر لوگوں کو اپنے اوپر مسلط کرنا ہے۔ آج کل سیاسی میدان میں عوام کی آمد آمد ہے۔ کہیں عہدوں کے شوقین تو کہیں پروٹوکول کے خواہش مند سیاسی لیڈر کہلوانے لگے۔ بڑے اور منجھے ہوئے سیاست دان موسمی اتار چڑھاؤ سے خوب واقفیت رکھتے ہیں طلباء تنظیموں پر پابندیاں لگا کر پارٹیوں کی ذیلی تنظیمیں بنا دی جاتی ہیں تاکہ ایسے موسمی لیڈروں اور عہدوں کے شوقین افراد کو ایک خاص خانے میں رکھا جائے۔

اس خاص خانے میں رہنے والے بے چاروں کو سیاسی تربیت سے محروم رکھ کر ان کی سوچ اس حد تک محدود کر دی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذات کے دائرے سے باہر نکل ہی نہیں سکتے۔ عملی سیاست میں عموماً دو ہی لوگ کامیاب ہو پاتے ہیں ایک وہ جو ویژن لے کر چلتے ہیں اور اگر ذیلی تنظیموں میں عہدوں کی چوسنی تھام بھی لیں تو ان کی نظر اپنے ٹارگٹ پر ہی مرکوز رہتی ہے اور قربانیاں دینے کے بعد ایک طویل سفر طے کر کے آخر کار وہ اپنی منزل پا ہی لیتے ہیں۔

ایسے لوگوں کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔ دوسرے وہ لوگ جن کے بزرگوں کا سیاست سے بلاواسطہ یا بالواسطہ تعلق رہا ہوتا ہے اور وہ اپنے بزگوں کے نام اور مقام کے ساتھ بہترین سیاسی تربیت کی وجہ سے سیاسی میدان میں اپنے قدم جما لیتے ہیں۔ پاکستان اور آزاد کشمیر میں دوسری قسم کے سیاست دانوں کی بھرمار ہے اور ہر دور کی اسمبلی میں اکثریت بھی انہی کی ہے۔

سابق وزیراعظم و صدر آل جموں و کشمیرسردار عتیق احمد خان ایک بہت ہی زیرک سیاست دان ہیں اور حالات و واقعات کا جائزہ نہایت ہی جاذب نظری کے ساتھ لگانے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں آزاد ریاست جموں وکشمیر کی چند سنجیدہ اور قابل شخصیات میں سے ایک ہیں۔ سردار عتیق دونوں قسم کے سیاست دانوں کی کیٹاگری میں ایڈجسٹ ہو جاتے ہیں۔ موصوف اعداد کا علم جاننے میں بھی خوب مہارت رکھتے ہیں مگر گزشتہ کچھ عرصہ سے ان کے ستارے گردش میں ہیں جس کی وجہ سے ان کی جماعت پس پردہ ہوتی نظر آ رہی تھی۔

پاکستان میں عام انتخابات سے پہلے ہی سردار عتیق نے عمران خان کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا اور الیکشن کے بعد راجہ فاروق حیدر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا پرگرام مرتب دے رہے تھے جس کی وجہ سے آزاد کشمیر اسمبلی کا تخت ڈھگمگا رہا تھا اور کابینہ میں توسیع کرنے سے گھر جانا بہتر سمجھنے والے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے 11 وزراء کی مختصر کابینہ میں یکے بعد دیگرے توسیع لا کر وزراء کی تعداد کو 28 کر دیا۔ اندرون خانہ متعدد ممبرانِ اسمبلی بھی قائل ہو چکے تھے (چند بڑے ناموں سمیت) یہاں تک سردار عتیق کا ہر پینترہ بالکل صحیح تھا اور کامیاب ہوتے نظر آ رہے تھے۔

سابق وزیراعظم و صدر پاکستان تحریک انصاف آزادکشمیربیرسٹر سلطان محمود چودھری کی وزیراعظم پاکستان عمران خان کے ساتھ ملاقات اور ملاقات میں آزاکشمیر سیاست پر ن لیگی حکومت کی طرف سے دھاندلی وغیرہ کی کہانی دہرا کر بیرسٹر سلطان نے گیم اپنے حق میں کر لی ملاقات کے بعد حالات کچھ بدلے بدلے محسوس ہوئے اور سردار عتیق گیم سے آوٹ ہوتے نظر آئے اور ممکنات میں سے ہے کہ چودھری سعید صاحب کی سیٹ خالی ہو جائے جس کا فائدہ بلاواسطہ بیرسٹرسلطان کو ہو گا اوروہ اسمبلی میں الیکٹ یا سیلیکٹ ہو کر جائیں گے تاکہ لابنگ کر کے سردار عتیق کا پلان سنبھالیں۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد بیرسٹر سطان وزیراعظم کے امیدوار ہوں گے جبکہ سردار عتیق کو صدر بنائے جانے کے امکانات ہیں۔

موجودہ وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر کی عمران خان سے ملاقات میں اہم نقطہ تخت کی سلامتی کی ضمانت چاہنا تھا اور رسمی طور پر عمران خان نے یقین دہانی کروا دی تھی کے آپ بے فکر رہیں میں ایسی کسی سرگرمی کا ساتھ نا دوں گا مگر پی ٹی آئی کے ایک اہم عہدیدار اور عمران خان کے قریبی دوست نے پاکستان کے جنرل الیکشن کے دوران نجی محفل میں انکشاف کیا تھا کہ ”ڈیل ہو چکی ہے پاکستان میں حکومت بننے کے بعد آزاد کشمیر میں بھی ن لیگ سے کرسی چھین لی جائے گی“۔

آج کل سیاست ایک ایسا گیم شو بن چکا ہے جہاں حالات اکثر بدلتے رہتے ہیں، وفا کا معیار اقتدار، ہمدردی کا معیار ووٹ، دلیری کا معیار عوامی طاقت اور جیت کا معیار ذاتیات پر حملہ ہے۔ سیاست ایسا کھیل بن چکا جہاں رنگ بدلنے والے کو بہترین سیاسی کارکن تصور کیا جاتا جہاں زبان کا پاس نہیں رکھا جاتا اور بدزبانی یا جھوٹ کو سیاسی بیان کہا جاتا ہے۔ حالیہ صورت حال میں جمہوریت آخری سانسیں لے رہی ہے یتیم سیاسی ورکرز کی سیاسی تربیت کی ضرورت ہے تاکہ وہ سیاسی گیم شو سے نکل کر سمجھ سکیں سیاست میں کامیابی اقتدار کا حصول نہیں بلکہ عوام کی فلاح ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).