ہتھیاروں سے امن قائم نہیں ہو سکتا


صدر عارف علوی نے کراچی میں دسویں دفاعی نمائش کا افتتاح کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پاکستان کے ہتھیار اس کی طاقت کے علاوہ امن کی خواہش کا اظہار ہیں۔ امن قائم رکھنے کے لئے ہمیں مضبوط دفاع کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی حملہ آور کو منہ توڑ جواب دیا جاسکے‘ ۔ ملک میں مضبوط اور طاقتور فوج کی ضرورت پر ہمیشہ سے زور دیا جاتا رہا ہے۔ اس مقصد کے لئے زوال پذیر معیشت میں عام لوگوں پر بوجھ ڈال کر بھاری بھر کم عسکری ادارے قائمکیے گئے ہیں۔ 72 سال کی مختصر مدت میں چھوٹی موٹی جھڑپوں کے علاوہ پاکستان ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ تین بڑی جنگوں میں ملوث ہو چکا ہے۔ اس لئے یہ کہنا تاریخی طور سے بھی درست نہیں ہے کہ ہتھیار حاصل کرکے امن کا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ ہتھیار اور گولہ بارود صرف تباہی اور جنگ کے ہی کام آ سکتے ہیں۔

مئی 1998 میں بھارت کے جوہری ہتھیاروں کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ یہ دھماکے کرنے کے لئے سب سے اہم دلیل یہ دی گئی تھی کہ ایک بار جوہری صلاحیت حاصل کرنے کے بعد جنگ کے اندیشہ کو ختم کردیا جائے گا۔ پاکستان کے پاس جوہری ہتھیاروں کی صورت میں دفاعی صلاحیت ہونے کی وجہ سے دشمن پاکستان پر حملہ کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔ اس وقت سے پاکستان مسلسل اپنے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ کرتا رہا ہے لیکن بھارت کے ساتھ تعلقات یا علاقائی امن کے لئے اس صلاحیت نے کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے۔ پاکستان نے اب مبینہ طور پر موبائل جوہری ہتھیار بھی تیارکیے ہیں تاکہ بھارت کی جنگی ڈاکٹرائن ’کولڈ سٹارٹ‘ کا مؤثر اور بھرپور جواب دیا جا سکے۔ اس حکمت عملی سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان عملی طور پر یہ تسلیم کرتا ہے کہ وہ روایتی ہتھیاروں کی مدد سے بھارتی حملے کا مقابلہ کرنے کا اہل نہیں ہے۔

بھارت کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن کے تحت جنگ کی صورت میں مختلف محاذوں پر اچانک اور شدید حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ پاکستان کی دفاعی اور عسکری صلاحیت کو مسدود کیا جاسکے۔ کہا جاتا ہے کہ اس اچانک بھرپور حملہ کا جواب دینے کے لئے پاکستان نے چھوٹے موبائل جوہری ہتھیار تیارکیے ہیں تاکہ انہیں حملہ کی صورت میں دشمن کی پیش قدمی روکنے کے لئے استعمال میں لایا جاسکے۔ جنگ کی منصوبہ بندی کرنے والے یہ غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ کسی جوابی عسکری حکمت عملی کو بروئے کار لانے کے کیا عواقب ہو سکتے ہیں اور اس کے خطہ یا دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ کیوں کہ فوجی منصوبہ بنانے والوں کا مقصد فوری نتیجہ حاصل کرنا ہوتا ہے کہ دشمن کی یلغار کو روکا جائے۔ اس کی تباہ کاری کا جائزہ لینا ان کے ایجنڈے کا حصہ نہیں ہوتا۔ یہ کام عام طور سے سویلین حکمران کرتے ہیں تاکہ کسی بھی ناگہانی صورت حال کو پیدا ہونے سے روکا جاسکے۔

ملک کی سول قیادت سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ دشمن ملکوں کی بجائے اپنے عوام کی بہبود اور خوشحالی کے نقطہ نظر سے ایسی پالیسیاں وضع کرے جن کے نتیجہ میں امن کی امید پیدا ہو اور جنگ کی صورت حال جنم نہ لے۔ پاکستان سے زیادہ کوئی دوسرا ملک اس حقیقت کی گواہی نہیں دے سکتا کہ جنگ کے کتنے بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ افغانستان میں سوویٹ افواج کو شکست دینے کے لئے شروع کی گئی جنگ میں پاکستان نے بنیادی کردار ادا کیا تھا اور اسے ملک کی عسکری، سیاسی اور سفارتی کامیابی قرار دیا گیا تھا۔

اس جنگ کے بعد افغانستان میں ہی تباہ کاری نے ڈیرے نہیں ڈالے بلکہ اس کے نتیجہ میں ہونے والی نقل مکانی کی وجہ سے پاکستان کو گزشتہ 30 برسوں سے تیس سے چالیس لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کرنا پڑا ہے۔ طالبان جیسے انتہا پسند گروہ اور القاعدہ جیسے دہشت گرد عناصر کا جنم بھی افغانستان میں برپا کی گئی پہلی جنگ کے دوران ہی ہؤا تھا۔ 2001 میں برپا ہونے والے نائن الیون کے بعد افغانستان پر اتحادی افواج نے حملہ کیا اور پاکستان کو اس میں حصہ دار بننا پڑا۔ ملک اب تک اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی دہشت گردی اور سماجی منافرت کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔

صدر مملکت نے کراچی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گو کہ پاکستانی ہتھیاروں کو امن کا سبب قرار دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی افغان مہاجرین کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان کے انسان دوست چہرہ کو سامنے لانے کی کوشش بھی کی ہے۔ لیکن کسی بھی پاکستانی لیڈر کی طرح ڈاکٹر عارف علوی بھی افغان جنگوں میں پاکستان کے کردار اور ان کے منفی اور تباہ کن اثرات کا ذکر کرنے یا ذمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ تاہم چند ماہ پہلے برسراقتدار آنے والی تحریک انصاف کے نمائیندے کے طور پر صدر مملکت نے ہتھیار بنانے کی صلاحیت کو ملک کے دفاع کے علاوہ معیشت کے لئے بھی ضروری قرار دیا ہے۔

البتہ صدر مملکت ملک کی سویلین قیادت کا نمائندہ ہونے کے باوجود بوجوہ اس حقیقت کو سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہوئے کہ ہتھیار سازی اور ان کی برآمدات کا کام ملک کی افواج کے دائرہ کار میں ہے۔ ان کی تیاری، کارکردگی، فروخت یا استعمال کے حوالہ سے پاکستان کی منتخب حکومت کو پالیسی سازی کا اختیار نہیں ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی ہوں جو ملک کے نمائشی سربراہ ہیں یا کوئی باختیار سیاسی لیڈر ہو، اس حکمت عملی کا نہ تو ذمہ دار ہے اور نہ ہی اسے تبدیل کرنے کا مجاز ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ اس مقصد کے لئے منتخب پارلیمنٹ کو با اختیار اور پالیسی سازی کا مرکز بنانا پڑے گا جو فی الوقت ملک میں نافذالعمل جمہوری نظام کے بس میں نہیں ہے۔ اس نظام کی ماہیت کو چیلنج کرنے کی پاداش میں نواز شریف اپنے خاندان سمیت احتساب عدالتوں کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔

اس کے باوجود صدر عارف علوی نے اس تقریر میں اعتراف کیا ہے کہ معاشی استحکام کے بغیر ملکی سلامتی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ معیشت کو ترقی، بہبود اور دفاع کی بنیاد ماننے کے باوجود جب صدر علوی ہتھیاروں کی اہمیت اور عسکری صلاحیتوں کی اہمیت پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں تو ان کی باتوں میں تضاد واضح ہونے لگتا ہے۔ اس تضاد سے نکلے بغیر حکومت نہ تو نیا پاکستان بنا سکتی ہے اور نہ ہی عام لوگوں کے شب و روز میں تبدیلی کے لئے اقداماتکیے جاسکتے ہیں۔

 صدر علوی کو بھی ’نیا پاکستان‘ معرض وجود میں آنے کی نوید دیتے ہوئے اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے تھا۔ اگر وہ اس سچائی سے بے خبر ہیں تو یہ افسوسناک بات ہے اور اگر وہ اور ان کے قائد عمران خان سیکورٹی کی بنیاد پر استوار معیشت اور پالیسی کو فلاحی معاشرہ کے لئے مہلک سمجھنے کا حوصلہ دکھانے کے قابل نہیں ہیں تو نیا پاکستان بنانے کے سارے دعوے کھوکھلے ثابت ہوں گے۔ معاشی ترجیحات تبدیلکیے بغیر اور عوامی فلاح کو حکومتی پالیسی کی بنیاد بنائے بغیر عوام دوست معاشرہ قائم ہونا ممکن نہیں ہے۔

پاکستان کے صدر جس وقت میں فوجی طاقت کو اہم قرار دینے کے دعوے کررہے ہیں، اسی وقت یہ خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کی شدید بھاگ دوڑ کے باوجود گزشتہ چار ماہ کے دوران پاکستان ادائیگیوں کے توازن کو پورا کرنے کے لئے صرف ڈیڑھ ارب ڈالر کے قرضے حاصل کرنے میں کامیاب ہؤا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ پیکیج کے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں کیوں کہ یہ مالیاتی ادارہ قرض فراہم کرنے کے لئے جو معاشی اقدامات نافذ کروانا چاہتا ہے اس سے براہ راست ملک کا غریب شہری متاثر ہوگا۔

 پاپولر ووٹ کی محتاج حکومت کے لئے ایسی شرائط قبول کرنا آسان نہیں ہے۔ متبادل کے طور پر مختلف ملکوں اور اداروں سے عبوری کمرشل قرضے حاصل کرکے کام چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت ایک سو دن پورے ہونے کے باوجود ابھی تک کوئی واضح معاشی پالیسی متعارف کروانے میں بھی کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ نہ ہی بنیادی اہمیت کے فیصلے کیے جارہے ہیں۔ ماہرین معاشیات اس غیر یقینی صورت حال کو ملکی معیشت کے لئے مہلک قرار دیتے ہیں۔

عمران خان سرمایہ کاری میں اضافہ اور برآمدات بڑھاکر ملکی معیشت میں انقلاب برپا کرنے کی باتیں تو ضرور کرتے ہیں لیکن وہ خود اور ان کی پوری کابینہ اعتماد کا ماحول پیدا کرنے کی بجائے دھمکیوں ور نعروں کے ذریعے خوف کی کیفیت پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ کوئی سرمایہ کار اس ماحول میں اپنا سرمایہ کسی بھی ملک میں لانے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ بھاری بھر کم سرکاری اداروں پی آئی اے یا اسٹیل مل کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔

 روپے کی قدر مسلسل دباؤ کا شکار ہے۔ انرجی سیکٹر میں وصولیوں کا نظام متعارف نہیں ہوسکا اور گردشی قرضہ کم کرنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ عمران خان اور حکومت کا سارا زور بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات میں اضافہ پر ہے۔ عمران خان متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ دوسرے ملکوں میں مقیم پاکستانی اپنے وسائل بنکنگ نظام کے ذریعے ملک بھیجنا شروع کردیں تو ان ترسیلات میں دس ارب ڈالر کا اضافہ ہوجائے گا جو ملک کو درپیش ادائیگیوں کے توازن کو پورا کرنے کے لئے کافی ہوگا۔ البتہ حکومت اب تک ایسے کوئی عملی اقدامات تجویز نہیں کرسکی جن کی وجہ سے یہ معجزہ برپا ہوسکے۔ نہ ہی بیرون ملک پاکستانیوں کے فراہم کردہ وسائل ملکی معیشت کی وسیع المدت بحالی کے کام کا متبادل ہوسکتے ہیں۔

ڈاکٹر عارف علوی کی یہ بات درست ہے کہ امن ہر پاکستانی کی خواہش ہے لیکن حکومت کو اس کے حصول کے لئے ہتھیاروں اور عسکری صلاحیتوں میں اضافہ پر توجہ مبذول کرنے کی بجائے دنیا اور ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لئے بعض اصولی اور پالیسی ساز فیصلے کرنا پڑیں گے۔ حکومت کے سوچنے کا انداز تبدیل کیے بغیر ہتھیار تباہی تو لاسکتے ہیں امن کا پیغام نہیں بن سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali