کرتار پور راہداری- ایک نئے دور کا آغاز


دریائے راوی کے کنارے واقع سکھوں کا مقدس مقام گردوارہ دربار صاحب کرتارپور اب سکھ یاتریوں کے لیے کھولا جانے والا ہے۔ سات دہائیوں کے بعد پاکستان اور بھارت تین کلومیٹر کا راستہ طے کرنے پرآمادہ ہوئے۔ نفرت، انتقام اور تاریخی زیادتیوں کے احساس نے امن، ترقی اور خوشحالی کی بات کرنے او رمشترکہ ورثے کو بروئے کار لاکر مستقبل میں جھانکے کی صلاح دینے والوں کو احمق اور بسا اوقات غیر محب وطن قراردیاگیا۔ بالاخر دونوں ممالک میں عقل و خرد نے غلبہ پایا اور اس مذہبی اور تاریخی مقام کو یاتریوں کے کھولنے کی اجازت دی گئی۔

اگلے چند دنوں میں وزیراعظم عمران خان کرتارپور میں سکھ یاتریوں کے لیے سرکاری سطح پر سہولتوں کی فراہمی کے انفراسٹرکچر کا افتتاح کریں گے۔ تقریب میں پاکستان بھر کی سکھ برادری کو شرکت کے لیے مدعو کیا گیاہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے کہا کہ دونوں ممالک کی سرکاروں اور افواج میں معلوم نہیں کب معاملات طے پائیں لیکن شہریوں کو ایک دوسرے سے ملنے سے نہیں روکاجانا چاہیے۔ وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے بھارتی کابینہ کی جانب سے کرتارپور سرحد کھولنے کی پاکستانی تجویز کی تائیدکو دونوں ممالک کی امن کی لابی کی فتح قراردیا۔ امید ظاہر کی کہ ایسے اقدامات سے سرحد کی دونوں جانب امن اور دانائی کی باتیں کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔

کرتارپور کا گردوارہ دنیا بھر میں بسنے والے سکھوں کے لیے بہت اہم مذہبی مقام ہے۔ یہ سکھوں کے مذہبی لیڈربابا گرونانک کی رہائش گا ہ اور جائے وفات ہے۔ چنانچہ ہر سکھ کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زندگی میں کم ازکم ایک بار ضرور کرتار پور کادرشن کرے۔ بھارت میں لگ بھگ دو کروڑ سکھ بستے ہیں جنہیں دونوں ممالک میں خراب تعلقات کے باعث پاکستان آنے اور کرتارپور جانے میں زبردست مشکلات کا سامنا رہتاہے۔ حالانکہ یہ گردوارہ پاک بھارت سرحد سے چند کلو میڑ کی مسافت پر واقع ہے۔ کرتارپور راہداری کھلنے سے بغیر ویزے یا سفری دستاویزات کے سکھ درشن کے لیے کرتارپور آسکیں گے۔

حکومت پاکستان نے پہل قدمی کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ذہنی طور پرچابک دست ہے اور رجائیت پسند اقدامات کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بھارت ایک اسٹیٹس کو پاور ہے جو سرحدوں میں کوئی تبدیلی نہیں چاہتا خاص کر کشمیر کے پس منظر میں۔ گزشتہ تیس برسوں میں اس نے اپنے عوام کو بھی مسلسل یہ باور کرایا کہ پاکستان ان کا دشمن اوربھارت کو ٹکرے ٹکرے کرنا چاہتاہے۔ چنانچہ الیکشن میں پاکستان کے برعکس لوگ پاکستان مخالف جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں اور ان لیڈروں کی پذیرائی کرتے ہیں جو پاکستان یا کشمیریوں کے تئیں سخت گیر لب ولہجہ اختیار کرتے ہیں۔ اس پس منظر میں بھارت کے ساتھ ایک ہمہ پہلو سفارت کاری کی ضرورت ہے۔ پرویز مشرف کہا کرتے تھے کہ بھارت کو مذاکرات کی میز سے بھاگنے نہیں دینا چاہیے۔

سکھ قوم خطے میں امن اور خوشحالی کی علمبردار بن سکتی ہے۔ وہ مزاجاًوسیع القلب اور خوش مزاج لوگ ہیں۔ ماضی کی تلخیوں کو دفن کرنے پر آمادہ بھی ہیں۔ آزادی کے بعد انہیں بھارتی حکومت اور نظام سے بہت شکوے او رشکایات رہی ہیں۔ مشرقی پنجاب میں علیحدگی کی تحریک بھی ابھری۔ گولڈن ٹمپل پر حملے اور بعدازاں وزیراعظم انداگاندھی کے قتل کے بعد سکھوں پر بیتے والی قیامت کی یادیں بھی سکھ کمیونٹی کے دل ودماغ سے محو نہیں ہوئیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا ایک نیا باب کھولنے میں سکھ بطور ایک قوم مدد دے سکتے ہیں۔ لہٰذا ان کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ایک طرف کرتارپور راہداری کھولی رہی ہے تو دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق محض رواں سال چار سو افراد کو شہید کیاگیا۔ جاں بحق ہونے والوں میں نصف سے زیادہ نوجوان ہیں جن میں چار پی ایج ڈی سکالر بھی ہیں۔ گزشتہ ماہ برطانوی پارلیمنٹ کے ایک گروپ نے کشمیر پر انیس صفحات پر مشتمل طویل رپورٹ میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر روک لگائے۔ کالے قوانین منسوخ کرے۔ گمنام قبروں کا فرانزک ٹیسٹ کرائے تاکہ حقائق معلوم کیے جاسکیں کہ ان قبروں میں کون لوگ دفن ہیں۔ اس رپورٹ میں سیاسی گروہوں کی سرگرمیوں پر عائد پابندیوں کو بھی ہدف تنقید بنایاگیا اور بھارت سے مطالبہ کیاگیا کہ وہ کشمیر پر پاکستان سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کرے۔

اوآئی سی کے سیکرٹری جنرل یوسف بن احمد نے گزشتہ ہفتے جدہ میں کشمیر پر پاکستانی قونصلیٹ کے اشتراک سے ہونے والی ایک نمائش کا افتتاح کیا اور بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر میں طاقت کا بے محابا استعمال بند کرے۔ وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر نے ای یو کشمیر کونسل کے سربراہ سیّد علی رضا بخاری کی دعوت پر برسلز کا دورہ کیا جہاں یورپی یونین پارلیمنٹ کے ارکان کے ساتھ کشمیر کے موضوع پر تبادلہ خیال کیاگیا۔ اس اجلاس میں بھی کشمیر میں جاری ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کیاگیا اور مذاکراتی عمل کی بحالی پر زور دیاگیا۔

ایک اور بڑی اہم پیش رفت جس پر پاکستانی میڈیا میں کوئی بحث نہیں ہوسکی وہ نیویارک میں ہوئی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی کی حق خود ارادیت کی حمایت میں پیش کردہ قرارداد اتفاق رائے سے منظور کی گئی۔ ، ملیحہ لودھی نے کہا کہ اس قرارداد کی منظوری سے مقبوضہ کشمیراورفلسطین میں حق خودارادیت کی جدوجہدکوتقویت ملے گی۔ قراردادسے بیرونی تسلط میں جکڑ ے لوگوں کوباورکرایاہے کہ وہ بے یارومددگارنہیں۔ بھارت اور اسرائیل اس طرح کی قراردادوں کے سخت خلاف ہیں لیکن باوجود اس قرارداد کا پاس ہونا اس امر کی عکاسی کرتاہے کہ عالمی برادری میں حق خودارادیت کا تصورا بھی زندہ وجاوید ہے۔

کرتارپور رہداری کے کھلنے سے یادآیا کہ کنٹرول لائن پر بھی آمد ورفت کا میکانزم موجود ہے۔ جس میں مسلسل اصلاح کی ضرورت ہے۔ اس آمدورفت کو منقسم خاندانوں تک محدود رکھنے کے بجائے اب عام شہریوں کو بھی شریک کیاجانا چاہیے۔ علاوہ ازیں سفری دستاویزات کے حصول کے پراسیس کو بھی آسان بنانے کی ضرورت ہے۔ کشمیر کے دونوں حصوں میں لوگوں نے کرتارپور سرحد کھولنے کے فیصلے کو سراہا لیکن یہ مطالبہ بھی دہرایا کہ کنٹرول لائن پرشہریوں کی آمد ورفت کو مزید آسان بنایاجائے۔ دو کراسنگ پوائنٹس کے علاوہ کچھ اور راستے بھی کھولے جائیں۔ سات دہائیوں سے بچھڑے ہوئے لوگوں ایک دوسرے سے ملنے کی سہولت ہو۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood