کرتار پور بارڈر افتتاح، را کی سازشوں کو ناکام اور بھارت سے بدلا لینے کا نادر موقع


اللہ اللہ کر کے تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے ابتدائی سو دن مکمل کرلیے، اس دوران پی ٹی آئی کو کوئی کامیابی ملی ہو یا نہیں مگر سفارتی سطح پر حکومت نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔

سفارتی سطح پر کامیابیوں کا سلسلہ عمران خان کی تقریبِ حلف برداری سے ہوا، جس میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے سیاستدان نوجوت سنگھ سدھو نے شرکت کی۔ میری ناقص معلومات کے مطابق یہ پہلا موقع تھا کہ حاضر ڈیوٹی سپہ سالار نے کسی بھارتی سیاستدان کو گلے لگایا ہو۔

سدھو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ سے بغل گیر ہوئے تو بھارتی میڈیا کو شدید تکلیف ہوئی ظاہر ہے ہونی بھی چاہیے۔ یہ بالکل ایسی بات تھی جیسے مودی، نوازشریف کے گھر پر بغیر ویزے شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے آئے۔ جس طرح نامور بھارتی جندال نے مری میں سابق وزیراعظم سے ملاقاتیں کیں۔

نوجوت سنگھ سدھو کی آمد سکھوں کے لیے اچھا شگون ثابت ہوئی۔ آرمی چیف نے مہمان کو یقین دہانی کروائی کہ ‘پاکستان سکھ یاتریوں کے لیے کرتار پور بارڈر کھول دے گا’۔ اب جب سپہ سالار نے بول ہی دیا تھا تو وزیر اعظم کیسے پیچھے ہٹتے اس لیے انھوں نے تیز ترین ٹیم کی خدمات لیں اور اس راہ داری کا افتتاح ہے۔

ابھی یہ طے نہیں پایا کہ بھارت سے آنے والے سکھوں کو ویزے کی ضرورت ہو گی بھی یا نہیں!؟ یا پھر وہاں سے بالکل ویسے آنا جانا ہو گا، جیسے چمن بارڈر سے ایک دور میں افغانستان آمد و رفت رہتی تھی۔

حکومت نے افتتاحی تقریب میں وزیر خارجہ سشما سوراج کو شرکت کی دعوت دی، انھوں نے دعوت کا بہانہ بنا کر انکار کر دیا۔ پھر دو بھارتی سیاستدانوں نے بھی صاف انکار کر دیا۔ پہلے سدھو کو بھی اجازت نہیں ملی تھی، مگر وہ حکومت کی اجازت سے واہگہ کے راستے پاکستان پہنچ گئے۔

کرتار پور راہ داری بارڈر کھولنا پاکستان کی طرف سے اچھا اقدام ہے، مگر حسبِ حال اس فیصلے پر وہی لوگ تنقید کرتے نظر آرہے ہیں، جو ماضی میں بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا مطالبہ کرتے نظر آتے تھے۔ خیر! یہ سلسلہ تو چلتا ہی رہتا ہے، کل کے حامی آج کے مخالف۔ (بالکل ایس ہی خادم رضوی کے ساتھ بھی ہوا)۔

پاک بھارت تعلقات کو بحال ہونا چاہیے، کیوں کہ دونوں ممالک کی ثقافت، روایت ایک جیسی ہیں۔ ہاں مگر وہاں کا حکمراں طبقہ اور خفیہ ایجنسی را کے گھناؤنے اقدامات پاکستان کی جذبہ خیر سگالی کے برابر کبھی نہیں پہنچ سکتے اور نہ چھوٹے لوگوں کا قد کبھی اتنا بڑا ہو سکتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں ہونے والے بیش تر دہشت گردی کے واقعات میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے تانے بانے ہی ملتے ہیں۔ بلوچستان میں اُس نے کس طرح علاحدگی پسندوں کو اسلحہ اور مدد فراہم کی، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کشمیر میں گذشتہ دو دنوں سے بھارتی فوج کی بربریت جس میں 36 سے زائد نوجوان شہید اور دو سالہ بچی سمیت متعدد خواتین اور مرد پیلٹ گن کے چہرے لگنے سے زخمی ہوئے۔

اسی طرح ہمارے پاس یہ اطلاعات بھی ہیں، کہ حال ہی میں کراچی کے چینی قونصلیٹ پر ہونے والے حملے کے تانے بانے بھی بھارت سے ملے، کیوں کہ بلوچ لبریشن آرمی کے اس واقعے میں ملوث ہونے کے واضح ثبوت آ گئے ہیں۔ ساتھ میں ہمارے پاس یہ بھی ثبوت ہے جس اسلم عرف اچھو کو ہم مردہ قرار دے چکے تھے، وہ بھارت کے نجی اسپتال میں زیر علاج ہے؛ یعنی مودی سرکار اُسے زندگی کی جلا بخشنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ 13 جولائی کو صوبہ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں خود کش حملہ آور نے جس طرح را کی مدد سے بلوچستان عوامی پارٹی کی کارنر مٹینگ پر حملہ کیا، جس میں سراج رئیسانی سمیت 149 افراد شہید ہوئے تھے۔

اسے کون بھول سکتا ہے کہ طرح نیپال کی سرحد سے 8 اپریل 2017 کو بھارتی خفیہ ایجنسی نے سابق فوجی افسر کرنل (ر) محمد حبیب ظاہر کو نوکری کا جھانسا دے کر لا پتا کر دیا تھا، جن کے بارے میں آخری اطلاع 2017 ہی کو موصول ہوئی تھی۔

کون نہیں جانتا کہ کلبھوشن نے اپنے وِڈیو پیغامات میں کن کن دہشت گردی کی وارداتوں کا اعتراف نہیں کیا۔ اُس نے کیا کچھ نہ بتایا کہ بلوچستان، کراچی اور دیگر علاقوں میں کس طرح را کا نیٹ ورک آپریٹ کرتا تھا۔

را کی ساری سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے ہم کرتار پور کا بارڈر (صاحب کے حکم پر) ضرور کھولیں گے اور اب کی بار خالصتان تحریک کے کامریڈوں کا استعمال کرتے ہوئے بنگلا دیش والا حساب ضرور برابر کریں گے۔ مظلوم سکھوں کو بھارتی حکومت کے ظلم و بربریت سے نجات دلائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).