شیخ رشید کا سو دن کا ٹارگیٹ سندھ میں تو حاصل ہو گیا ۔


وفاقی وزیر برائے ریلوے شیخ رشید احمد نے اپنی وزارت کے سو دن کے ٹارگیٹ کو بہترین انداز میں حاصل کیا ہے جس سے یہ بات سامنے آئی کہ حالات وہی، وسائل وہی، بس جو کام کرنا چاہے وہ کر سکتا ہے۔ کم از کم سندھ میں تو عوام شیخ صاحب کی کرکردگی سے کافی خوش ہیں۔ کیونکہ پشاور سے کراچی چلائی جانے والی نئی ٹرین رحمان بابا ایکسپریس اور فیصل آباد ایکسپریس کی ملتان تک توسیع کے ساتھ نئیں ٹرینیں سندھ ایکسپریس، شاہ عبداللطیف بھٹائی ایکسپریس، موئنجو دڑو ایکسپریس، روہی ایکسپریس آج کل سندھ میں ریلوے لائین پررواں دواں ہیں او عوام کو اس کا بھرپور فائدہ پہنچ رہا ہے۔

موئنجو داڑو ایکسپریس سکھر سے براستہ شکارپور، لاڑکانہ، دادو، سیہون سے کوٹری کے درمیان دریائے سندھ کے دائیں کنارے چلائی گئی ہے، جبکہ دوسری ٹرین روہی ایکسپریس لوکل ٹرین ہے جو سکھر سے پنجاب کی سمت روہڑی، پنوعاقل، گھوٹکی، میرپور ماتھیلو اور خان پور سمیت مختلف شہروں کے درمیان چلائی گئی ہے۔ کراچی سے چلنے والی دھابے جی شٹل کا روٹ میرپور خاص تک بڑھادیاگیا ہے،

دوسری جانب 24 نومبر سے سندھ ایکسپریس کا افتتاح کر دیا گیا ہے، بالکل زیرو میٹر بوگیوں والی اس نئی ٹرین نے سندھ بھر کے عوام کے دل جیت لئے ہیں۔ سندھ ایکسپریس کراچی سے صبح ساڑھے 8 بجے سکھر کے لئے روانہ ہوتی ہے اور سکھر سے صبح 11 بجے کراچی کے لئے روانہ ہوتی ہے۔ میں نے عوام اور ریلوے ملازمین کے تاثرات جاننے کے لئے سندھ ایکسپریس میں روہڑی سے کراچی تک سفر کیا تو مجموعی طور پر عوامی رد عمل انتہائی خوش آئند تھا جس کی خاص وجہ اس ٹرین کی ٹائمنگ اور اس پوری ٹرین کی بوگیوں کا زیرو میٹر نیو ہونا تھا۔

البتہ یہ باتیں سامنے آئیں کہ سندھ ایکسپریس کا کراچی سے چلنے کا ٹائم بھی صبح 8 بجے کہ بجائے 11 بجے ہی ہونا چاہیے کیونکہ کراچی جیسے بڑے شہر میں صبح 8 بجے اسٹیشن پہنچنے کا مطلب ہے صبح پانچ بجے اٹھنا، جب ہی کوئی فیملی صبح 8 بجے سندھ ایکسپریس میں سوار ہو سکتی ہے۔ اس سفر میں دوسری تجویز یہ سامنے آئی کہ سندھ ایکسپریس کو جو انجن لگایا گیا ہے وہ نیا اور طاقتور ہے اور اس میں بیس بوگیوں تک کو کھینچنے کی طاقت ہے اس لئے اس ٹرین میں 9 کے بجائے مزید بوگیا لگائی جائیں کیونکہ اکانومی کلاس فل جا رہا ہے اور اس میں بالکل بھی جگہ نہیں۔ سندھ ایکسپریس میں اکانومی کلاس کی سات، آٹھ مزید بوگیوں اور کھانے کی بوگی، ڈائنگ کار کی اشد ضرورت ہے۔

ایک ٹرین سے ہزاروں لوگ مسفید ہوتے ہیں اس لئے نئی ٹرینوں کے چلنے کی خوشی عوامی سطح کی ہے لوگوں کو یہ ہی توقع تھی کہ ہمیشہ کی طرح سندھ میں چلنے والی ٹرینوں کی طرح ٹوٹی پھوٹی، مدع خارج بوگیاں لگا کر فارملٹی پوری کی جائے گی مگر ایک

نئی ٹرین کو دیکھ کر لوگ خوشگوار حیرت میں مبتلا ہیں۔

آخر میں ریلوے کے وفاقی وزیر شیخ رشید احمد سے یہ گزارش کرتے چلیں کہ پاکستان ریلوے کی ٹکٹ پر جو پاکستان ریلوے کی پہچان اور شان کی طور پر جو تصویر ہے وہ 1889 میں بنے روہڑی کے لینڈس ڈاؤن پل کی ہے۔ پاکستان کا یہ شاندارلینڈ مارک جو پاکستان ریلوے کی ملکیت ہے برباد ہو رہا ہے، اربوں روپے کا تاریخی، خوبصورت، روہڑی، سکھر، سندھ بلکہ پاکستان کا لینڈ مارک پل، صرف ایک ڈرین پائپ نہ ہونے کی وجہ سے تباہ ہو رہا ہے۔

یہ پل کرپشن کی نظر ہوکر تباہ و برباد ہے۔ اس تباہی کو دیکھ کر میں نے سابقہ دورحکومت میں صدرِ پاکستان، وزیراعظم پاکستان اور چیئرمین نیب کے دفاتر میں شکایت درج کروائیں۔ پریزیڈنٹ ہاؤس سے پٹیشن نمبر 4271 بتاریخ 29 ستمبر 2016 وفاقی سیکریٹری پاکستان ریلوے سے ہوتی ہوئی ڈویزنل سپرینٹنڈنٹ پاکستان ریلوے سکھر سے جواب طلبی کی گئی تو، کچھہ ماہ بعد وفاقی سیکریٹری کے توسط سے ڈی ایس سکھر کی رپورٹ پریزیڈنٹ ہاؤس اسلام آباد پنہچی، جس کی کاپی مجھے بھی بھیجی گئی۔ اس میں تو قصہ ہی اور بیان کیا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ، وزیراعظم پاکستان کی طرف سے 2010 میں اس پل کی مرمت کے لئے ڈھائی کروڑ منظور کیے گئے۔ 2012 میں اس پل کی مرمت کا کام دو کروڑ بیس لاکھ روپے کی رقم میں مکمل کیا گیا۔ جس میں سب سے زیادہ خرچ ایک کروڑ چالیس لاکھ صرف رنگ و روغن پر خرچ ہوئے۔ یہ پل اب ریلوے ٹریفک کے لئے نہیں مگر روڈ ٹریفک کے لئے استعمال ہوتا ہے اس لئے سندھ حکومت کو ڈپٹی کمشنر سکھر اور سیکریٹری ورکس اینڈ سروسز کے توسط سے کئی بار لکھا گیا ہے کہ پل کی مرمت پر توجہ دیں مگر آج تک کوئی جواب نہیں آیا۔

اس خط کے آخر میں صاف لکھا گیا ہے کہ یہ پل اب پاکستان ریلوے کے استعمال میں نہیں اور نہ ہی پاکستان ریلوے میں اس پل کی مرمت کے لئے کوئی بجٹ رکھا جاتا ہے۔ اس لئے وہ مرمت نہیں کروا سکتے۔ اس پل کی مرمت بھی ایسی کی گئی تھی کہ رونا آتا ہے، پل پر روڈ کے دونوں طرف پیدل چلنے والوں کا رستہ ہے جس پر انگریزوں کا لگایا ہوا لکڑی کا فرش ایک سو سال چلا، مگر گذشتہ مرمت میں وہ قیمتی لکڑی نکال کر نئی لکڑی لگائی گئی، صرف ایک سال گزرا کہ اپنے والدین کے آگے پیدل چلنے والا 12 سالہ بچہ لکڑی ٹوٹنے کی وجہ سے دریائے سندھ میں جا گرا، دہ دن کی تلاش کے بعد پاکستان نیوی والوں نے اس کی لاش نکالی۔ نہ کیس ہوا، نہ ٹھیکیدار سے کسی نے باز پرس کی۔ یہ پل ان دنوں مکمل طور پر لاوارث ہے۔ پاکستان ریلوے اپنے اس لینڈ مارک کی واپسی کرکے اس پل کو مکمل تباہی سے بچا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).