سفیدہ ! رحمت یا زحمت


حال ہی میں بی بی سی نے ایک درخت سفیدے پر مضمون شائع کیا جس میں عام فہم انداز میں بتایا گیا ہے کہ یہ درخت کس طرح پاکستان جیسے پانی کی کمی کا شکار ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔ جس پر ”ایگری اخبار“ نے ایک ردعمل شائع کیا ہے جس میں بی بی سی کی رپورٹ پر تجزیہ دیا گیا ہے اور یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ سفیدے کا درخت کوئی خاص برا نہیں ہے بلکہ شیشم (ٹالی) کے درخت سے بہتر ہی ہے۔ یہ ایک دلچسپ رپورٹ ہے اس لیے سوچا کیوں نہ اس کا جائزہ لیا جائے۔

اس رپورٹ میں انتہائی سائنسی طریقے سے شائع شدہ تحقیق کے حوالے دے کر سفیدے کو ایک فائدہ مند درخت ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سب سے پہلے 1993 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں کاشت ہونے والا تقریباً پچاس فیصد سفیدہ ایسے بارانی علاقوں میں ہوتا ہے جن میں سالانہ بارش بہت کم ہونے کے باوجود سفیدہ انتہائی کامیابی سے اگتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ سفیدے کی پانی کی طلب کچھ خاص زیادہ نہیں ہے۔

حالانکہ اس سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ سفیدہ کم پانی کی موجودگی میں بھی زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کہ پانی ہی کم استعمال کرتا ہے۔ مثال کے طور پر خشک سالی کو برداشت کرنے کی صلاحیت والے پودوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی جڑوں کو بہت تیزی سے بڑھاتے ہیں اور زیرزمین پانی کو موئثر طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔

اس کے بعد سفیدہ کی چار اقسام کا ذکر ہے جو زیادہ تر پاکستان میں کاشت کی جا رہی ہیں اور ان میں ایک قسم کے پانی استعمال کرنے کی شرح 29 لیٹر یومیہ رپورٹ کی ہے۔ اس کے لیے 1998 میں شائع ہونے والے ایک مقالے کا حوالہ دیاگیا ہے۔ اس مقالے میں جو ڈیٹا دیا گیا ہے وہ پودے کے تنے کے قطر، پتوں کے رقبے (لیف ایریا) اور پودے کی اونچائی وغیرہ کے لحاظ سے دیا گیا ہے اور انتہائی دلچسپ طور پر مذکورہ قسم کا پتوں کا کل رقبہ (لیف ایریا) صرف 5 مربع میٹر ہے جو پودے کے بہت چھوٹا ہونے کو ظاہر کرتا ہے جبکہ پودے کے پانی استعمال کرنے کی صلاحیت کا براہ راست تعلق اس کے پتوں کے رقبے سے ہوتا ہے اور جیسے پودا بڑھے گا یہ رقبہ بڑھے گا اور پانی کا استعمال بھی۔

اسی جدول میں سفیدے کی دوسری اقسام کا ذکر ہے جن میں پودے کا منطقۂ برگ (پتوں کا رقبہ کی نسبت مجھے ”منطقہ برگ“ زیاد ہ فصیح لگا جو کہ فارسی کی اصطلاح ہے اور اگر کوئی اس کے لیے بہتر اردو متبادل جانتے ہوں تو بتا کر ممنون احسان فرمائیں ) 147 سے 330 تک ہے اور ان کی پانی کے استعمال کی شرح 151 سے 285 لیٹر روزانہ کے حساب سے ہے۔ اس رپورٹ میں دیے گئے ڈیٹا کو پودوں کی اقسام کے فرق کے طور پر پیش کیا ہے حالانکہ کہ اس میں دوسرے عوامل زیادہ اہم ہیں کیونکہ کہ دیا گیا جدول مختلف مقالوں کا ریویو ہے اور مختلف اقسام کے تقابلی جائزے کی بجائے مختلف سائز کے درختوں کا تقابلی جائزہ پیش کرتا ہے۔

اس کے علاوہ جن دو اقسام کا ذکر کیا گیا ہے ان کا منطقہ برگ بھی بالترتیب 5 اور 7 مربع میٹر ہے اور پودے بہت چھوٹے ہیں جبکہ سفیدے کی جس قسم کا بہت زیادہ پانی استعمال کرنے والی قسم کے طور پر ذکر کیا گیا ہے اس کا منتقئہ برگ 219 مربع میٹر ہے اور مجھے سو فیصد یقین ہے کہ اگر یہ پودا بھی چھوٹی عمر میں سٹڈی کیا گیا ہوتا تو اس کا پانی کا استعمال بھی دوسری اقسام سے چنداں مختلف نہ ہوتا۔

اس کے بعد ایک پاکستانی جرنل میں شائع ہونے والی سٹدی کا حوالہ دیا ہے اور نتیجہ نکالا ہے سفیدے کا درخت شیشم (ٹالی) کے درخت سے کم پانی استعمال کرکے زیادہ پیداوار دیتا ہے۔ اس پر ویسے تو اسی سٹدی کے ابسٹریکٹ کا فائنل جملہ ہوبہو لکھ دینا ہی کافی ہے جو کے درج ذیل ہے۔

“The increased water use (lower TC) by Eucalyptus may lead to desertification and lowering ground water table and resulting scarcity of aquifer resources for deep-well-irrigated-agriculture in arid and semi-arid climates like one in Pakistan.”

”یعنی سفیدے کا پانی کا فاضل استعمال زمین کو بنجر بنانے، زیرزمین پانی کی سطح کی کو مزید نیچے لے جانے کا باعث بن سکتا ہے جس کی نتیجے میں پاکستان کے بارانی اور نیم بارانی ماحول میں زراعت کے لیے زیر زمین آبی وسائل کی شدید کمی واقع ہو سکتی ہے“۔

لیکن اگر آپ کو بھی سائنس سے تھوڑی بہت دلچسپی ہو تو مذکورہ آرٹیکل کا وہ جدول ہی دیکھ لیں جس سے شیشم کے سفیدے کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہے تو آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ یعنی اس جدول کے مطابق شیشم کے درخت کا سالانہ پانی کا استعمال 23 لیٹر ہے جبکہ سفیدے کا 80 لیٹر ہے۔

چونکہ مذکورہ رپورٹ میں شیشم کی پیداوار کے لحاظ سے ایک بڑا دعوٰی کیا گیا ہے جوکہ درج ذیل ہے ”میرے محتاط اندازے کے مطابق سفیدے کا درخت 10 سال میں شیشم کے مقابلے میں دوگنی لکڑی پیدا کر لیتا ہو گا۔ اس حساب سے سفیدے کو شیشم کے 7 لیٹر کے مقابلے میں 9 کی بجائے 18 لیٹر پانی پینا چاہیے“ حالانکہ یہ کوئی سائنسی تحقیق نہیں بلکہ ایک محتاط اندازہ ہے پھر بھی اگراس کو سچ مان لیا جائے تو سفیدے کی لکڑی کا شیشم لکڑی سے کیا موازنہ۔ اس بات کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس کا کبھی فرنیچر وغیرہ خریدنے یا بنوانے سے واسطہ پڑا ہو۔

یہاں تک تو مذکورہ مضمون کی بات ہو گئی اب میں حال ہی میں سفیدے پر کی گئی ایک تحقیق (جکتی و دیگر، 2016 ) کا ذکر کرکے مضمون کو ختم کرتا ہوں۔ 2016 میں شائع ہونے والے اس مقالے میں بالکل اسی سپیشیز (قسم) پر تحقیق کی گئی ہے جس کا ذکر مذکورہ مضمون میں کیا ہے یعنی ”یوکلیپٹس کیمیلڈولینسس“ پر۔ یہ تحقیق ساؤتھ افریقہ میں کی گئی ہے اور اس درخت کو ”انویسیو ایلین“ اور ”اگریسیو ایلین“ یعنی ”ناگوار اجنبی“ یا ”جارح اجنبی“ کا خطاب دیا گیا ہے۔

محقق لکھتے ہیں کہ 50 سینٹی میٹر قطر کے تنے والا درخت ایک گرم اور خشک دن میں تقریباً 260 لیٹر پانی ٹرانسپائر (ہوا میں بخارات کی شکل میں پانی کا اخراج) کرتا ہے۔ دلچسپ طور پر یہ تحقیق دریا کے کنارے اگے ہوئے پودوں پر کی گئی ہے اور ہمارے ہاں تو زیادہ تر نہروں کے کنارے سفیدے کے جنگل آباد کیے گئے ہیں جو مسلسل نہری پانی کو ہوا بنا رہے ہیں۔ مزید اس مقالے میں دعوٰی کیا گیا ہے کہ اگر ایک ہیکٹر سے اس پودے کو اکھاڑ دیا جائے تو سالانہ تقریباً 2 ملیں لیٹر پانی بچایا جا سکتا ہے۔ اگر آپ یہ ریسرچ آرٹیکل پڑھنا چاہیں تو مندرجہ ذیل لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔

https://www.sciencedirect.com/science/article/pii/S0378112715006155


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).