کرتارپور کوریڈور احسن قدم، لیکن۔ ۔ ۔


ایک طرف حکومت کے سو دن مکمل ہونے پر جہاں حکومت وقت سے سخت ترین سوالات پوچھے جارہے ہیں، میڈیا پر حکومتی ترجمانوں کو اپنی حکومت کو اپنا دفاع کرنے میں سخت دشواری ہورہی ہے، تو دوسری طرف حکومت کے لئے کرتارپور کوریڈور (راہداری) کا سنگ بنیاد رکھنا تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں، کیونکہ جہاں حکومت سے اپنی کارکردگی بارے سوالات ہورہے تھے اب ہر طرف کرتارپور کوریڈور چھایا ہوا ہے، جیسے حکومتی سو دن کی کارکردگی پس پشت چلی گئی ہو۔

لیکن حکومتی ناقدین اس پیش رفت کو حکومت کے کھاتے میں ڈالتے نظر نہیں آرہے، کیونکہ ماضی کی مضبوط دو تہائی اکثریت والی سیاسی حکومتیں کوششوں کے باوجود کرتارپور بارڈر کو کھولنے کے اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کرسکی۔ لیکن اس بار قدر کمزور حکومت جو چند ووٹوں کی عددی اکثریت سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہو، کے دور میں اچانک کرتارپور کوریڈور کا کُھلنا ایک سوالیہ نشان ہے۔ پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں کرتارپور بارڈر کے لئے کی گئی کوششوں کو نہ صرف پس پشت ڈالا گیا بلکہ حکومت پر سخت تنقید کی گئی اور سکھوں کی لسٹ بھارت کو فراہم کرنے جیسے الزامات لگائے گئے۔

بعد میں مسلم لیگ کی حکومت کی کوششیں بھی ناکام ہوئی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی لیڈرشپ پر مختلف قسم کے الزامات لگائے گئے۔ اب کوریڈور کا کھولے جانے پر جو سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، ان کے جوابات شاید موجودہ حکومت کے خاتمے پر یا آنے والے دنوں میں تاریخ خود دے گی کیونکہ جو کام سابقہ حکومتیں کرنا چاہتی تھیں اُنہیں تو روکا گیا، لیکن موجودہ حکومت کے پہلے سو دنوں میں 73 سال سے رکے ہوئے کام کو عملی جامہ پہنایا گیا۔

اب یہ رائے تقویت حاصل کررہی کہ اصل حکومت وہ نہیں جو نظر آتی ہے بلکہ اصل حکومت وہ ہے جو نظر نہیں آتی، جب تک طاقتور ترین ادارے مضبوط دکھائی دینے والی دو تہائی اکثریت کی حامل حکومت کے شانہ بشانہ نہ ہوں تب تک بارڈر کھولنے جیسے کام نہیں کرسکتے اور کمزور ترین حکومتیں بھی کرلیتی ہیں جب مضبوط ادارے کمزور حکومت کی پشت پناہی کررہے ہوتے ہیں۔

اب اگر صوبہ پنجاب کی حدود میں دوسری راہداری کرتارپور کھولی جا رہی ہے (پہلا واہگہ بارڈر) تو لگے ہاتھوں صوبہ سندھ میں کھوکھرا پار مونا باؤ راہداری، خیبر پختون خواہ میں افغانستان سے تجارتی راہداری اور بلوچستان، ایران راہداری کھولنے میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔

رب نواز بلوچ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

رب نواز بلوچ

رب نواز بلوچ سماجی کارکن اور سوشل میڈیا پر کافی متحرک رہتے ہیں، عوامی مسائل کو مسلسل اٹھاتے رہتے ہیں، پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں۔ ٹویٹر پر @RabnBaloch اور فیس بک پر www.facebook/RabDino اور واٹس ایپ نمبر 03006316499 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

rab-nawaz-baloch has 30 posts and counting.See all posts by rab-nawaz-baloch