کوکھ کی چوٹ


مجھے یاد ہے ایک دن تو غصے میں میں نے انہیں کہہ بھی دیاتھا، جب انہوں نے مجھے شام کو یونیورسٹی کے ایک فنکشن میں جانے سے منع کردیا تھا۔ ”ساری پابندیاں میرے لیے ہیں میرے لیے اور وہ جو آپ کے بیٹے ہیں باقر کب آئیں، کب جائیں، کچھ کریں، کچھ نہیں کریں کچھ نہیں کہتی ہیں انہیں آپ۔ ان کے لیے سب جائز ہے ان کے لیے سب صحیح ہے۔ “

کچھ نہیں کہا تھا انہوں نے۔ دیکھتی رہیں مجھے کھڑے کھڑے اورآنسوؤں سے ان کا چہرہ بھرگیا تھا، زاروقطار روتی رہیں اور اسی وقت نہ جانے کہاں سے باقر بھیا آگئے۔ انہوں نے سن لیا تھا یا پتہ نہیں کیا بات تھی، اس شام کو پہلی دفعہ ان کے ساتھ میں باہر نکلی تھی۔ ٹیکسی کرکے مجھے وہ یونیورسٹی چھوڑگئے اور جس وقت میں نے کہا تھا اسی وقت ٹیکسی پر آکر مجھے واپس بھی لے گئے تھے۔ اس دن یونیورسٹی کے فنکشن کا مزا آگیا تھا اور ایک نئے باقر بھائی یکایک میری زندگی میں داخل ہوگئے، بغیر کسی دستک کے کسی کو اڑ کو کھولے بِنا۔

مجھے امی کا وہ روہانسا چہرہ یاد ہے۔ دوسرے دن گلے لگ کر میں رو دی تھی۔ ان کی ٹیڑھی میڑھی انگلیوں کو پکڑ کر ان کے جھکے ہوئے بائیں شانے سے لگ کر میں کچھ کہہ نہیں سکی پر وہ سمجھ گئی تھیں۔ مائیں سمجھ جاتی ہیں میرے وجود کے ایک ایک اَنگ نے ان سے معافی مانگی تھی، پھر کبھی بھی باقر بھیا کے بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی ان سے میں نے۔

باقر بھیا بہت مہربان ہوگئے تھے مجھ پر۔ جب بھی آتے، کچھ نہ کچھ لے کر آتے میرے لیے جتنے دن گھر میں رہتے مجھ سے باتیں کرتے میری سنتے، میری بنائی ہوئی چائے، میرا پکایا ہوا ناشتہ، میرے ہاتھ کے بنے ہوئے پکوڑے، میرا بنایا ہوا فروٹ چاٹ، سب کچھ پسند تھا ان کو۔ میرا خیال اس طرح سے کرتے جیسے میں کوئی شہزادی ہوں۔ مذاق میں بھی جو مُنھ سے نکل جاتا اسے پورا کرنے کے ہر جتن کرڈالتے تھے وہ۔ شاید چھوٹی بہن اور ایک ہی بہن ہونے کی وجہ سے ان کے دل میں میرے لیے خاص جگہ تھی۔ مجھے تو لگتا تھا صرف پیار ہی پیار بھرا ہوا ہے ان کے دل میں۔

دور پار کے رشتہ دار محلے والے عجیب عجیب باتیں کرتے تھے ان کے بارے میں، کسی اسمگلر کے لیے کام کرتے ہیں وہ، پولیس انفارمر ہیں، کسی ایجنسی کے لیے کام کرتے ہیں۔ فوجیوں سے رابطے ہیں ان کے۔ لیاری مافیا کے ساتھ ہیں وہ۔ اغوا اور تاوان کے دھندے میں ہیں۔ جتنی مُنھ اتنی باتیں۔ مگر کسی کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ امی کے سامنے ان کے خلاف کوئی بات کریں۔ بچپن سے جوانی تک امی نے انہیں صرف پروٹیکٹ کیا تھا، کبھی انہیں ڈانٹا نہیں، کبھی انہیں مارا نہیں، اتنی عجیب و غریب محبت تھی انہیں اُن سے۔ گھر میں، خاندان میں، پاس پڑوس محلے میں ہر ایک آگاہ تھا اس بات سے۔

ساجد کی باقر بھیا سے بالکل ہی نہیں بنتی تھی، شروع شروع میں تو دونوں لڑتے ہی رہتے تھے۔ امی ہمیشہ باقر بھیا کی طرفداری کرکے لڑائی ختم کراتی تھیں دونوں کی۔ میں نہیں سمجھتی کہ ساجد بھائی کو باقر بھیا سے نفرت تھی لیکن یہ ضرور تھا کہ ساجد بھائی باقر بھیا کوبالکل بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ساجد بھائی نے کوشش کرکے ڈگری ملتے ہی ملک چھوڑدیا، پیسے کمانے لگے، پیسے کما کر واپس آئے اور گھرلیا اورہم سب ماموں جان کی مدد سے اپنی چھت کے نیچے رہنے لگے۔ یہ گھر انہوں نے امی کے نام سے لیا تھا۔

عامر کا رویہ کوئی خاص نہیں تھا۔ وہ باقر بھیا سے بھی خوب گھل مل جاتا اور ساجد بھائی سے بھی اس کی دوستی بھائی کے رشتے سے آگے تھی۔ وہ اپنے کام میں مگن رہتا لیکن میں نے دیکھا کہ وہ کبھی بھی امی سے باقر بھیا کے بارے میں بات نہیں کرتا تھا۔

پھر ایک دن یہ سب کچھ ہوگیا۔ باقر بھیا گھر پر ہی سو رہے تھے کہ رات تین بجے یکایک گھر میں پولیس گھس آئی اور دس پندرہ منٹوں کے اندر باقر بھیا کو ہتھکڑیاں بھی لگ گئی تھیں اور آناً فاناً وہ غائب بھی ہوگئے تھے۔

پھر سب کچھ بہت جلدی جلدی ہو۔ ، اخباروں سے پتہ لگا کہ اس رات دو اور لوگوں کوبھی گرفتار کیا گیا تھا۔ باقر بھیا سمیت ان تینوں پر قتل کا الزام تھا۔ خصوصی عدالت میں مقدمہ چلا جہاں سزائے موت سنائی گئی، ہائی کورٹ، سپریم کورٹ اور صدر پاکستان سے اپیل۔ بائیس مہینے قیامت کی طرح گزرگئے۔ امی کے آنسو کبھی رُکے ہوئے نہیں دیکھے میں نے۔ ساجد بھائی نے روپے بھیجنے میں کبھی دیر نہیں کی۔ جو بڑا وکیل ہوسکتا تھا کیا گیا۔ جس در پر کھٹکھٹانے کو کہا گیا امی اپنا دامن پھیلا کر کھڑی ہوگئیں مگر کچھ نہیں ہوسکا۔

اس منحوس صبح کو باقر بھیا کو پھانسی دے دی گئی۔ آخری ملاقات میں امی کا چہرہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا تھا۔ باقر بھیا کے چہرے پر بڑی تلخ مسکراہٹ تھی۔ وہ خاموش بیٹھے رہے اورامی بنا پلک جھپکائے سارا وقت ساکت پتلیوں کے ساتھ انہیں تکتی رہیں۔ ملاقات کا وقت ختم ہونے پر ان کی پیشانی کو چوما، ان کے چہرے کے پیدائشی داغ کو پلکوں سے چھوا، اپنے مڑے تڑے ہاتھ سے ان کے چہرے پر پھیرتی رہیں پھر روتی ہوئی، کانپتی ہوئی، سسکتی ہوئی گھر آگئیں۔

باقر بھیا کو دفنانے کے بعد امی نے کچھ کھایا نہیں۔ روئی نہیں، سوئی نہیں۔ شروع میں ضد کرکے میں نے انہیں کچھ پانی پلایا تو اُلٹی ہوگئی، دوسرے دن ہی انہیں ہسپتال میں داخل کرنا پڑگیا۔ پانی اور طاقت کی شدید کمی تھی ان میں۔ ہسپتال پہنچتے ہی انہیں گلوکوز اور نہ جانے کیا کیا چڑھایا گیا، دو دن تیزی سے گزرگئے۔ وہ ایک لاش کی طرح بستر پر پڑی ہوئی نہ جانے دور تک کیا دیکھنے کی کوشش کرتی رہی تھیں۔ کسی سوچ میں گم کسی امید کے بغیر انہوں نے زندگی سے ناطہ شاید توڑ دیا تھا۔

اس دن میں ان کے سرہانے بیٹھی ان کا سردبارہی تھی، دھیرے دھیرے، دھیمے دھیمے انہوں نے بہت آہستہ سے کہا تھا کہ بہت درد ہے بیٹا، بہت درد ہے۔ کہاں کہاں دباؤ گی۔ سر کو، کاندھوں کو، ہاتھوں کو، انگلیوں کو، پیروں کو ہر طرف درد ہے بیٹا ہر طرف درد ہے۔ جسم میں، بدن میں، ذہن میں، روح میں، روح کے اندر نہ جانے کہاں کہاں۔

”امی جہاں بولیں وہاں دباؤں گی مگر خدا کے لیے کچھ کھاتو لیں، پی تو لیں، ایسے کیسے ہوگا، امی ایسے کیسے ہوگا۔ “ میں نے ان سے التجا بھرے لہجے میں کہا۔
”نہیں بیٹے اب میں جاؤں گی یہ درد اب ختم نہیں ہوگا، درد سہنے والا چلا گیا تو میرا اب کیا کام ہے۔ “ انہوں نے پھر دھیرے سے کہا تھا۔
میں ان کی گردن اور ٹیڑھے سے دائیں کاندھے کو آہستہ آہستہ سہلاتی رہی، مگر درد ان کے چہرے پر بادل کی طرح چھایا ہوا تھا۔

پھر اچانک آہستہ آہستہ اپنا ہاتھ اُٹھا کر انہوں نے میرے ہاتھ پکڑلیے، زور سے دبایا پھر کہنے لگی تھیں ”بیٹی ایسے ہی خوبصورت ہاتھ تھے میرے، ایسے ہی نرم، لانبی، گداز، گرم گرم انگلیاں تھیں میری۔ میں یہ ٹیڑھے میڑھے مڑے تڑے ہاتھ اور انگلیاں لے کر نہیں آئی تھی دنیا میں۔ میرا یہ ٹوٹا ہوا کاندھا نہیں تھا۔ میں پوری تھی سالم سر سے پیر تک۔ ثابت انگلیوں اور انگلیوں کے پوروں سے لے کر جسم کی ہر ہر ہڈی تک۔ میرا سر سالم تھا میرے کاندھے شانے سب سالم تھے۔ بیٹے میں تمہاری طرح تھی مکمل، خوبصورت اور حسین۔ “ جیسے انہوں نے سرگوشی کی تھی۔ تھوڑی دیر پھر بولنا شروع کردیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3