جب امن کی فاختہ بھی ہندو، سکھ اور مسلمان ہو تو بابا گرو نانک کیا کریں گے


پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور بھارتی پنجاب کے وزیر برائے سیاحت و کھیل نوجوت سنگھ سدھو نے کرتار پور راہداری کی بنیاد رکھ کر امن کا راستہ کھولنے کی کوشش کی ہے۔ ایک طرف امن کے قیام کے لیے پاک بھارت بات چیت کے لیے فاختہ کی اونچی اڑان ہے تو دوسری طرف بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے پاکستان پر دہشتگردی کی پشت پناہی کا الزام لگاتے ہوئے پاکستان میں منعقد ہونے والی سارک کانفرنس میں شمولیت سے انکار کر دیا ہے۔

بھارت میں نوجوت سنگھ سدھو سمیت کئی سکھ رہنماؤں پر سنگین غداری کے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور پاکستان کے آرمی چیف سے ان کی ملاقات کو منصوبہ خالصتان کا نام دیا جا رہا ہے۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور حکومت میں 2015 میں جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اچانک لاہور پہنچے تو اس وقت کی اپوزیشن اس دورے کو میاں نواز شریف کے بھارتی صنعتکار دوست سجن جندل کی ٹریڈ پالیسی کا نام دے رہی تھی اور پاکستان تحریک انصاف سمیت کئی سیاسی اور مذہبی جماعتیں میاں نواز شریف کے خلاف نعرے لگاتی نظر آئیں کہ جو مودی کا یار ہے وہ غدار ہے۔

مشہور زمانہ رمضان شوگر مل میں کام کرنے والے بھارتی افراد کو ویزا کی سہولیات دینے پر پاکستان مسلم لیگ ن کی ملک دشمن پالیسی قرار دیا گیا تھا۔ اور کبھی یہ وہی پاکستان مسلم لیگ ن تھی جو پاک بھارت بات چیت اور امن کے قیام پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وزیر داخلہ اعتزاز احسن کو سکھوں کی آزادی کی تحریک خالصتان میں شامل سکھوں کی فہرستوں کو بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو دینے کے الزام لگا کر انہیں غداری کا سرٹیفکیٹ دے کر اپنا شوق پورا کر رہی تھی۔

اگست 1947 سے لے کر نومبر 2018 تک پاک بھارت تعلقات میں جنگی جنون، گولہ باری اور امن کی فاختہ اڑتی نظر آئی مگر ساتھ ساتھ امن کی آشا اور ساؤتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن کے امتیاز عالم اور ماروی سرمد سمیت کئی پاکستانیوں کو غدار کے القابات سے بھی نواز کر ان کے دفاتر کو تالے لگانے کی کوششیں کی گئیں اور اسی طرح کی صورتحال ہمیں بھارت میں بھی نظر آئی۔ لاہور ڈکلیئریشن ہو یا پھر آگرہ سمٹ دونوں ہی شدید نفرتوں کی نظر ہو گئیں۔

پاک بھارت تعلقات میں مسئلہ کشمیر سمیت تمام تر مسائل ابھی تک جوں کے توں ہیں بیک ڈور ڈپلومیسی، کرکٹ ڈپلومیسی اور کلچر ڈپلومیسی سمیت کئی ڈپلومیسیاں نان اسٹیٹ ایکٹرز کی نظر ہو گئیں۔ بھارت کو پاکستان کی مقبوضہ کشمیر کی اخلاقی اور سفارتی مدد پر شدید اعتراض ہیں اور پاکستان کو کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور افغانستان اور ایران میں بھارتی سفارتخانوں میں پاکستان کے خلاف بڑھتی ہوئی جنونیت پسندی کے تانے بانے نظر آتے ہیں۔

پاکستان سمجھوتہ ایکسپریس حادثے کو بھلا نہیں پاتا اور بھارت ممبئی بلاسٹ کے شعلوں کو بھول نہیں سکا۔ بٹوارے کی نفرتیں ان 71 سالوں میں پاکستان اور بھارت کے عوام کی دلوں میں کائی بن کر جم چکی ہیں اب سدھو بھائی کی عوامی خارجہ پالیسی اور وزیر اعظم عمران خان کے کرتار پور کا امن کا یہ میدان بہت جلد ہی کسی بھول بھلیاں کا شکار ہو جائے گا۔ بھلے ہم بابا گرو نانک کی 550 ویں جنم دن کو دھوم دھام سے مناکر امن کا راستہ تلاش کریں مگر ہم نے بابا گرو نانک کی طرح اس امن کے فاختہ کو بھی مذہب مسلک میں بانٹ رکھا ہے جس طرح بابا گرو نانک کی میت کو مسلمان، ہندؤں اور سکھ اپنا اپنا نام اور مذہب دے کر ان کی آخری رسومات کرنا چاہتے تھے ٹھیک اسی طرح اس امن کی فاختہ کو بھی مذہب اور مسلک میں بانٹ کر رکھ دیا ہے اور سیاسی اور غیر سیاسی طاقتیں اسے اپنے اپنے مفاد کی لیے استعمال کرنا چاہتی ہیں تو ایسے میں بھلا بابا گرونانک کیا کریں گے۔

اس طرح کی صورتحال میں نہ ہی عوامی خارجہ پالیسی پروان چڑھے گی نہ ہی دونوں ملکوں کی عوام کی دلوں میں موجود نفرتیں ختم ہوں گی کیوں کہ جب بھی دوں وں ممالک ایک دوسری کے قریب آتے ہیں تو اچانک ہی ایک افسوس ناک واقعہ وقوع پذیر ہو جاتا ہے جس سے دوں وں ممالک کو صرف بات چیت کے لیے ایک جگہ پر بیٹھنے میں بھی سالہا سال لگ جاتے ہیں۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ دوں وں ممالک اپنی اپنی نیتیں ٹھیک کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے کامیاب ترین فارمولے ٹرید ڈپلومیسی کو اپنائے تاکہ سیاچن اور سر کریک جیسے حل طلب معاملات کو حل کر کے ہم مسئلہ کشمیر کا حل نکال سکیں۔ ورنہ تو یہ نفرتیں اور جنونیت پسندی دونوں ممالک کی ترقی و خوشحالی اور عوامی امنگوں کو جلا کر راکھ کر ڈالے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).