عہد۔ حاضر کے سامری



کہتے ہیں اور سنتے ہیں کہ سامری صاحب بڑے عیار تھے نظروں کے سامنے وہ وہ دھوکے پیدا کر دیتے تھے کہ اچھا خاصہ باشعور بندہ تلملا کے رہ جائے۔ جناب کی دربار۔ شاھی تک بڑی گہری رسائی تھی اور کانا پھوسی بڑی مہارت سے کر لیتے تھے۔
وقت بدل گیا زمانے تبدیل ہوگئے، درباروں کے حُلیے تبدیل ہوئے نہ بدلا تو سامری کا ہنر نہ بدلا اور اُس ہنر کی بدولت لوگوں کی آنکھوں سے سرُمہ چُرانے کی وہ خُداداد صلاحیت نہ بدلی جو سامری کو حاصل تھی۔
پاکستان میں جب کسی حکومت کو چلتا کرنے کا وقت آیا تو ان سامریوں کو آگے کیا گیا اور یہ سامری بھی وقت اور حالات کی نزاکت کو بھانپتے اپنی پٹاریوں سے نت نئے شعبدے تخلیق کرتے رہے۔ جب ضرورت ہوئی ( کیونکہ بقول شخصے) ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے تو یہ سامری ہر دور کی ضرورت کے مطابق ایجادات اور اختراع کرتے رہے۔ ایک وقت میں محترمہ فاطمہ جناح سے لوگوں کو ڈرانے کی ضرورت درپیش تھی تو سامری لوگوں کی پٹاریوں سے کیا کیا عالیشان نسخے نکلے اگر اُن کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلے گا علم و دانش کے وہ وہ موتی بکھرے پڑے ہیں کہ روح ارسطو کانپ جائے، شیخ مجیب کو جو ثابت کرنا تھا ان سامریوں نے کردیا یہ تو شومئی تقدیر کہیئے یا بنگالیوں کی کج فہمی اور کم فہمی کے نوشتہ دیوار نہ پڑھ پائے ورنہ ہمارے سامریوں نے تو روز روشن کی طرح شیخ مجیب کی نااھلی اور وطن دُشمنی ثابت کردی تھی۔ پھر سامریوں نے بتایا کہ بھٹو بس بھٹو ہیں پاکستان کیا، ایشیا کیا، عالم اقوام کی تقدیریں بدلنے والی ہیں حتی کہ عالم ارواح سے بھی نصرت و تائید کی صدائیں تھیں۔ پھر کیا ہوا ضرورت نہ رہی بھٹو کی تو کیا ہوا کہ یہی سامری جو چیز ذہنوں میں راسخ کر چُکے تھے اُس کو نکالنا ہی تو تھا سامریوں کے لیئے کیا مشکل تھی جھٹ سے ثابت ہوگیا کہ “ایشیا کا نجات دہندہ” مذہب کے لیئے مستقل خطرہ تھا۔ دؤر تبدیل ہوئے سامری نہیں، اسلام کے نفاذ کے امین جنرل ضیا صاحب نئے وقتوں میں امام الحق اور امیر المؤمنین۔ قلعۂ اسلام ثابت کردئیے گئے اور مجال ہے کہ سامریوں کی اس بات پے کسی شُبے کی کوئی گنجائش رہی ہو

وقت اور حالات کبھی یکساں نہیں رہتے اور نہ ہی بادشاہ گروں کے مزاج کبھی مزاج یار میں محترمہ شہید نجات دہندہ تھیں تو کبھی میاں صاحب اور کبھی محترمہ ناپسند تھیں تو کبھی میاں صاحب دونوں قسم کی حالتوں میں سامریوں کا فن نقطۂ عروج پے رہا۔ آقاؤں کی جنبش ابرو کی دیر تھی اور بس جو کرنا تھا وہ ثابت کردیا پھر کبھی زرداری کبھی پھر میاں صاحب تھے الزام وہی دشنام وہی الفاظ وہی لیکن لفظوں میں تاثیر کا رنگ تھا وہ سامریوں نے ہمیشہ اپنی ضروریات اور احتیاجات کے تحت بھرا اور نتائج کمال۔ کاریگری کی وجہ سے ہمیشہ وہی آئے جو سامریوں نے چاہا۔

کٹھ پتلیوں کے تماشے بڑے دلکش ہوتے ہیں اور بہت دلرُبا مگر یہ بھی نہیں ہوتا کہ ہمیشہ پُرانی کٹھ پتلیوں سے دل بھلایا جائے بچے بھی ایک طرح کے تماشے دیکھ کے بیزار ہو جاتے ہیں تو اب کے “تبدیلی” کی ٹھانی گئی پھر کیا تھا بھیک منگوں کو امیر شھر بننے کے نویدیں سُنائی گئیں، بیرون۔ ملک سے ڈالر کی ہوتی برسات دکھائی گئی، سوئس بینکوں میں چھپے ہوئے اربوں ڈالر واپس آتے نظر آئے کیا کیا تماشہ تھا کہ سامریوں کے ہنر نے برپا نہ کیا اور دیدہ بینا نے نہ دیکھا اور سامریوں نے نہ دکھایا۔
100 دن میں لیکن نہ بدلنے تھے بھوکوں ننگوں اور مفلسوں کے حالات نہ بدلے، ہمارا کشکول وہیں کا وہیں ہے بس دینے والے ہاتھ بدل گئے ہیں، ہماری پیٹ سے آوازیں تو ابھی بھوک کی ہیں بس سامریوں کی فسوں کاریوں نے ہمیں یہ باور کرا دیا کہ یہ پیٹ سے اُمید۔ سحر کی خوشی میں شادیانوں کی آوازیں ہیں۔
نوٹ: یہ حق پڑھنے والوں کے پاس محفوظ ہے مع سارے جُملہ حقوق کے کہ وہ کسے سامری سمجھتے ہیں۔ لکھنے والے کا اس علاقہ ممنوع سے گُذر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).