آہ! امجد فرید صابری۔۔۔ احساس کا قتل


\"tahmina\"لغت کے مطابق قتل کا مطلب: کسی کو جان سے مار دینے کا ہے۔ جبکہ قتل عمد سے مراد کسی کو ارادتاََ جان سے مار دینا ہے۔ قانون میں قتل عمد کی کوئی معافی نہیں ہے۔ کچھ عرصے سے کراچی اور دیگر شہروں میں امن و امان کی صورتحال بہتر نظر آرہی تھی اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ پاکستان امن و امان کا گہوارہ بنتا جارہا ہے جس کی بنیادی وجہ فوج کا عمل دخل تھا مگر اچانک 22 جون کی دوپہر مشہور قوال، نعت خواں، گلوگار امجد فرید صابری کو لالوکھیت دس نمبر کی مصروف شاہراہ پر دن دہاڑے قتل کر دیا گیا۔ امجد فرید صابری کی ملکی اور بین الاقوامی شہرت اپنی جگہ ہے مگر میری ان کی آواز سے براہ راست واقفیت اس وقت ہوئی جب میں اپنے کالج کے طلبہ کو\’\’ شکوہ\’\’ اور\’\’ جواب شکوہ کی\’\’ تیاری کروا رہی تھی۔ یو ٹیوب پر سرچ کرنے پر نعیم عباس روفی اور امجد فرید صابری کی آواز میں\’\’شکوہ\’\’ اور\’\’ جواب شکوہ\’\’ کی ویڈیوز ملیں۔ امجد فرید صابری کی لے میں طلبہ کو تیاری کرنے میں بہت مشکل پیش آئی۔ ان کی آواز کی لو اور ہائی پچ کی نقل کرنا ان دونوں طالبعلموں کے لیے آسان نہ تھا۔ ہائی پچ کی نقل کرتے ہوئے طلبہ کی آواز پھٹ جاتی تھی جب کہ امجد فرید صابری کی آواز میں رتی برابر تغیر نہیں آتا تھا۔ آج بھی ان کی آواز میں شکوہ کا پہلا بند میرے کانوں میں گونج رہا ہے۔

کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں

فکر فردا نہ کروں، محو غمِ دوش رہوں

نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں

ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

جرأت آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو

شکوہ اللہ سے، خاکم بدہن ہے مجھ کو

اس کے بعد تواتر سے امجد فرید صابری کی قوالیاں کانون میں پڑتی رہیں۔ بھر دے جھولی میری یا محمدؐ، لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی، میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا، یا صاحب الجمال وا یا سیدیا سید البشر، بے خود کیے دیتے ہیں،کعبے کی رونق کعبے کا منظر، اے خاصہ خاصان رسلؐ وقت دعا ہے، میں قبر اندھیری میں گھبراؤں گا جب تنہا۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار نعتیں، منقبتیں، قوالیاں امجد فرید صابری کی آواز میں سننے کا اتفاق ہوا۔ دل پر ان کی آواز کے گہرے اثرات تھے مگر جب بھی ان کی کوئی قوالی سنتی یا نعت کان میں پڑتی تو شکوہ کے بلند پچ میں پڑھے گئے اشعار کانوں میں گونجنا شروع ہو جاتے۔

تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا درِ خیبر کس نے

شہر قیصر کا جو تھا اس کو کیا سر کس نے

توڑے مخلوقِ خداوند وں کے پیکر کس نے

کاٹ کر رکھ دیے کفاروں کے لشکر کس نے

کس نے ٹھنڈا کیا آتشکدۂ ایراں کو؟

کس نے پھر زندہ کیا تذکرۂ یزداں کو؟

23 مارچ کے پروگرام میں جن طلبہ نے امجد فرید صابری کی طرز میں \’\’شکوہ \’\’ اور \’\’جواب شکوہ\’\’ پڑھا انھوں نے پوری محفل لوٹ لی۔ اس وقت تو میں بھی یہ سمجھی تھی کہ یہ طلبہ کی تیاری کا صلہ ہے مگر آج اس بات کا شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ اگر امجد فرید صابری وہ طرز ایجاد نہ کرتے تو طلبہ اس انداز میں یہ دونوں نظمیں پڑھ کر محفل نہیں لوٹ سکتے تھے۔

امجد قادری کا بہیمانہ قتل انتظامیہ کی نااہلی اور بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کے قتل پر مختلف سیاسی و سماجی لوگوں کے بیانات پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ بعض کے بیانات سے نفرت اور بے حسی کی بو آرہی تھی۔ جب کے کچھ لوگوں کے بیانات سن کر آنکھیں نم ہو گئیں۔ کراچی میں دہشت گردی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہونے کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ پولیس اہم چلتے ہوئے برجوں کے بیچوں بیچ موبائل لے کر اس طرح چیکنک کر رہی ہوتی ہے کہ شاید آج سارے قاتل پکڑ لے گی۔ کچی سڑکوں، اور سنسان علاقوں سے گزرنے والوں، معصوم موٹر سائیکل والوں اورنئے بننے والے مکان والوں کو تنگ کرنا عین فرض سمجھتی ہے۔ امن و امان کو قائم رکھنے سے زیادہ اعلی افسران اپنے پروٹوکول کے ساتھ اپنے آفس آتے ہیں اور اسی پروٹوکول کے ساتھ گھر روانہ ہوجاتے ہیں۔ جبکہ حکومت اور سیاسی پارٹیاں اپنے کردہ اور ناکردہ گناہوں کو چھپانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اہلکاروں کو احکام بھی جاری نہیں کر سکتیں۔ کیونکہ اس میں خود ان کی بھی پکڑ ہے۔

جبکہ اس وقت عوام بھی غیر ذمے دارانہ کردار ادا کر رہے ہیں جس کا احساس امجد فرید صابری کے قتل کے فوراََ بعد فیس بک پر اپ لوڈ ہونے والی تصاویر دیکھ کر ہوا۔ جس میں ان کا چہرہ خون سے لتھڑا ہوا ہے۔ ان کی میت کی وڈیوز فیس بک پر جاری کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنا کرادار ادا کردیا۔ اس وقت نہ تو عوام اپنا کردار ذمہ داری سے ادا کر رہے ہیں، نہ حکومت اور نہ ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے۔ کسی نے فیس بک پر لکھا کہ لغت میں امن و امان کی تعریف جو بھی ہو میری نظر میں ایک قتل سے دوسرے قتل تک رہنے والی خاموشی اور سکوت امن و امان ہے۔

امجد فرید صابری کا قتل، قتل عمد ہے جو ارادتاََ کیا گیا۔ ایک بین الاقوامی سطح پر مشہور شخصیت کو دن دہاڑے، بھرے پورے والی سڑک پر ٹریفک کے ہجوم کے درمیان قتل کردیا گیا اور مجرم آرام سے فرار ہو گیا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کھڑے ہوئے مونگ پھلیاں بیچتے رہے۔ کچھ دیر بعد مجرم کا خاکہ جاری کردیا گیا۔ سخت کاروائی کے احکامات جاری ہوئے۔ چند دن بعد کیس داخل دفتر کردیا جائے گا۔ تھوڑے تھوڑے دن بعد منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے اور عوام کا ذہن بدلنے کے لیے سیاسی لوگ یہ تذکرہ کریں گے کہ \’\’امجد فرید صابری کے قاتلوں کو گرفتار کرو\’\’ اور پھر سکوت طاری ہوجائے گا۔ زندگی پھر رواں دواں ہوگی اور چند دن بعد کسی اور مشہور شخصیت کو دن دہاڑے قتل کردیا جائے گا۔ کیا یہ ہے پاکستان کا قانون؟؟ کہ دہشت گردوں کو اس بات کا کوئی ڈر ہی نہیں کہ انھیں سزا ملے گی یا گرفتار کیا جائے گا۔ قاتل گرفتار کرنے والے تو اس دور میں بھی قاتل تک پہنچ جاتے تھے جب ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔ اور اگر نہیں پہنچنا ہو تو ایسی فوٹیج جاری کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔

یہ قتل ایک مشہور، قوال، نعت خواں اور گلوگار کا نہیں بلکہ پوری انسانیت اور سماج کا قتل ہے۔ اللہ تعالی پاکستانی قوم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بدعنوانی اور بے حسی سے نجات عطا کردے تاکہ پاکستانی ایک بہتر قوم کے طور پر سامنے آسکیں اور امجد فرید صابری جیسے لوگ جو ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں ان کے جان و مال کی حفاظت ہو سکے۔ \’\’جواب شکوہ\’\’ کے یہ اشعار امجد فرید صابری کی آواز میں اب بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔

اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے

تھا جو مسجود ملائک، یہ وہی آدم ہے

عالم کیف ہے، دانائے رموز کم ہے

ہان مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے

ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو

بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

امجد فرید صابری کے قتل عمد پر کسی شاعر نے یہ اشعار بھی کہے:

قوال تھا وہ کہنے کو لیکن سفیر تھا

اپنی مثال آپ تھا اور بے نظر تھا

افسوس ظالموں نے نہ جینے دیا اسے

حالانکہ بے ضرر تھا اور طبعاََ فقیر تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments