عورت میں بچے کی قدرتی خواہش


ہندی کے مشہور شاعر بہاری کا ایک دوہہ ہے، جس میں عورت اپنے محبوب سے کہتی ہے :۔

” میں اگر تم سے محبت کرتی ہوں، تو تم پر احسان نہیں کرتی۔ اس کی وجہ یہ ہے، کہ میرا دل تم سے محبت کرتا ہے، اور میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوں۔ یعنی یہ محبت بلا واسطہ ہے، میرے بس میں نہیں، کہ میں محبت سے کنارہ کش ہو جاؤں“ اس دوہے کے مطابق دنیا کی ہر عورت محبت کرنے پر مجبور ہے، اور وہ بغیر محبت کے خالی نہیں رہ سکتی۔ یہ محبت چاہے اسے اپنے محبوب سے ہو، شوہر سے، ماں باپ سے، بھائی بہنوں سے، اپنے بچوں سے یا کسی دوسرے کے بچہ سے۔

چنانچہ محبت کے متعلق عورت کی اس فطرت کی موجودگی میں یہ واقعہ دلچسپ ہے، کہ ہر عورت کے دل میں اپنے شوہر سے اس زمانہ سے ہی محبت کے جذبات شروع ہو جاتے ہیں، جس روز کہ اس کی سگائی ہو۔ یعنی جس روز اس کو یہ علم ہو جائے، کہ فلاں شخص سے اس کی شادی ہو گی۔ محبت کے یہ جذبات شادی سے پہلے اور شادی کے بعد اس زمانہ تک اپنے پورے جوبن اور عروج پر رہتے ہیں، جبکہ اس عورت کے بطن سے بچہ پیدا نہ ہو، اور بچہ پیدا ہونے کے بعد فوراً ہی محبت کے نوے فیصدی جذبات تو اس میں منتقل ہو جاتے ہیں، اور صرف دس فیصدی جذبات اس کے دل میں شوہر کے لئے باقی رہتے ہیں۔

یہ انسانی فطرت کے مطابق ہے۔ چنانچہ اگر کوئی عورت یہ کہتی ہے، اس کے ہاں بچہ پیدا ہونے کے بعد بھی اس کے دل میں اس کے شوہر کے لئے محبت کے سو فیصدی جذبات موجود ہیں، تو وہ عورت یقیناً جھوٹ بولتی ہے۔ اس بیان پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ جس کا ثبوت یہ ہے، کہ بچہ پیدا ہونے سے پہلے عورت اپنے شوہر سے یہی کہا کرتی ہے، کہ بھوکے رہیں گے، گد اگری کر لیں گے، جھو نپڑی میں رہائش اختیار کر لیں گے، اور مصائب برداشت کر لیں گے، مگر محبت کی راہ نہ چھوڑیں گے، مگر بچہ پیدا ہونے کے بعد یہی عورت اپنے شوہر کو آنکھیں دکھاتی اور کوستی ہوئی مطالبہ کرتی ہے، کہ بچہ کے لئے فراک لاؤ، دودھ کا ڈبہ لاؤ، اپنی زندگی کا بمیہ کراؤ، تاکہ بچہ کے بڑے ہونے پر یہ تعلیم حاصل کر سکے، اور جائیداد خریدو، تاکہ اولاد کے کام کام آئے۔

شوہر اور بچہ کی محبت کے سلسلہ میں ایک اور مثال دی جا سکتی ہے۔ مثلاً حضرت عزرائیل اگر عورت سے یہ کہے، کہ وہ اس کے گھر سے اس کے بچہ اور شوہر دونوں میں سے ایک کی جان لینا چاہتا ہے، وہ بچہ کی جان دینا چاہتی ہے، یا شوہر کی۔ تو عورت ہاتھ باندھ کر عزرائیل سے التجا کرے گی، کہ وہ دونوں میں سے کسی جان نہ لے۔ اور اگر حضرت عزرائیل اس التجا کو قبول کرنے سے انکار کر دے، اور عورت دونوں میں سے ایک کی جان دینے پر مجبور ہوئی، تو وہ لازمی طور پر اپنے شوہر کو اپنے بچہ پر قربان کر دے گی۔ یعنی یہ بیوہ ہونا، تو برداشت کر لے گی، مگر بچہ سے محروم ہونے پر تیار نہ ہو گی۔

حضرت مسیح نے انجیل میں فرمایا ہے، انسان کی زندگی کو خوشگوار رکھنے کے لئے تین باتیں ضروری ہیں :۔
1۔ انسان مصروف رہے۔ 2 :۔ محبت کا کوئی مرکز ہو۔ 3 آئندہ کے لئے کوئی توقع یا امید ہو۔

ان تینوں میں سے جس بات کی کمی ہو، انسان محسوس کرتا ہے۔ اور خوشگوار زندگی تب ہی رہ سکتی ہے، اگر تینوں باتیں میسر ہوں۔ چنانچہ اگر عورت کے بیوہ ہونے کی صورت میں اس کے ہاں کوئی اولاد نہ ہو، تو اس کے لئے زندگی گذارنا ایک عذاب سے کم نہیں، او ر اگر بیوہ ہونے کی صورت میں عورت کے ہاں بچے ہوں، یا عورت صرف حاملہ ہی ہو، تو وہ اس توقع پر ہی اپنی زندگی بسر کر سکتی ہے، کہ حمل کے نتیجہ میں جو بچہ پیدا ہو گا۔ اس سے محبت کرے گی، اس کی پرورش کرے گی۔ وہ بڑا ہو گا، وہ اس کی خدمت کرے گا، اور وہ اپنی ماں کی مشکلات دور کرے گا۔ یعنی عورت بیوہ اور حاملہ ہونے کی صورت میں بھی اپنے بچہ کے خیال میں مصروف اور اس بچہ کے متعلق آ ئندہ توقع رکھتے ہوئے اپنے مصیبت کے دن کاٹ لیتی ہے۔

عورت اور مرد دونوں کے محبت کے جذبات پر انصاف اور دیانتداری کے ساتھ غور کیا جائے، تو یہ اقرار کرنا پڑے گا، کہ مرد کے مقابلہ پر عورت بہت زیادہ بلند ہے۔ مرد وقتی طور پر محبت کا ساتھ دیتا ہے، مگر عورت فطرتاً محبت پر جان دیتی ہے۔ چنانچہ یہ واقعہ افسوسناک اور دلچسپ ہے، کہ جن لوگوں کی بیویاں بچوں کو چھوڑ کر انتقال کر جائیں، ان بیویوں کے شوہر چند روز بعد ہی نئی بیوی کی تلاش شروع کر دیتے ہیں۔ یہ تلاش یہ کہہ کر شروع کی جاتی ہے، کہ پہلی بیوی کے بچوں کو پالنے والا کوئی نہیں، اور نئی بیوی بچوں کو پال سکے گی، اور ان کی پرورش کر سکے گی۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے، کہ اس شخص کی نئی شادی کا ہونا ہی بچوں کے مصائب کا آغاز ہوا کرتا ہے، اور بچوں کی نئی اور سوتیلی ماں کی تباہی کے لئے میدان پیدا کرتی ہے۔ چنانچہ وہ لوگ انتہائی مکار اور عاقبت نا اندیش ہیں، جو بچوں کی موجودگی میں نئی شادی کریں، اور شادی کے ضرورت بچوں کی پرورش بتائیں۔

میری رائے میں ان لوگوں کو بھی شادی نہ کرنی چاہیے، جن کے ہاں بچے موجود ہوں، کیونکہ بچوں کا ماں کے بغیر یتیمی کا صدمہ کم تکلیف دہ ہے، اس کے مقابلہ پر کہ ان کو سوتیلی ماں کے مظالم کا تختہ مشق بننے دیا جائے۔

کتاب سیف و قلم سے اقتباس

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon