مہنگے اسکولوں میں سستی ہوتی اردو


پاکستان کے کیمبرج سسٹم، اسکولوں میں طلبا کے سامنے کھلا آپشن ہوتا ہے کہ وہ اردو کا امتحان سیکنڈ لینگویج کے طور پر دیں یا فرسٹ لینگویج کے طور پر۔ بعض اسکولوں میں آپشن نہیں دیا جا تا۔ وہ فرسٹ یا سیکنڈ لینگویج خود سے لاگو کر دیتے ہیں۔ پاکستان کے اسی فی صد کیمبرج اسکولوں میں اردو بطور سیکنڈ لینگویج پڑھائی جا تی ہے، جو اساتذہ کے لیے اس لحاظ سے آسان ہو تی ہے کہ مطالعے اور علم کے بغیر ان کا کام صرف کسی حوالہ جاتی کتاب سے ہی چل جا تا ہے۔

اؤ لیول اردو سیکنڈ لینگویج کے نصابی مضمون، سلیبس، امتحانی پرچے اور طریقہ تدریس میں وہی فرق ہے جو انگریزی اور اردو پڑھانے والے استاد میں ہوتا ہے۔ اردو کی بہ نسبت انگریزی کا استاد تدریس کے جدید طریقوں سے واقف ہوتا ہے۔

انگریزی میڈیم اسکولوں میں اردو کی صورتِ حال دگر گوں ہے۔ تمام مضامین انگریزی میں، اور بے چاری اردو زبان کا مضمون تنِ تنہا، پھر جدید برقیاتی ترقی کے دور میں انگریزی زبان ہی میں تمام چیزیں موجود ہیں۔ اس لیے اردو زبان کا دائرہ سکڑتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے میں اردو کا مضمون اور اساتذہ کا اس سے انصاف ان کی پیشہ ورانہ دیانت داری کا متقاضی ہے، مگر صورتِ حال انتہائی مایوس کن ہے۔ اکا دکا طالبِ علم جو اردو زبان و ادب سے فطری شغف رکھتے ہیں، وہ اردو بطور سیکنڈ لینگو یج اختیار کرنے اور امتحانی طریقہء کار کی غیر منطقی پابندیوں کی وجہ سے اپنی صلاحیت کا کھل کر اظہار نہیں کر پاتے۔

جیسے مضمون لکھنے کے لیے 150 اور رپورٹ، خط، مکالمہ اور تقریر کے لیے 200 الفاظ کی حد مقرر ہے۔ اب ایسے میں طالب علم الفاظ کے تجاوز کرنے کے خیال سے اپنے اظہار میں روانی، نہیں لاپاتا۔ یوں بوگس سلیبس اور طریقہ ء تدریس نے اردو زبان میں شاعر و، ادیب، نقاد، مبصر اور مقرر بننے کے امکان کو تقریباً زائل ہی کر دیا ہے۔

جن چند کیمبرج اسکولوں میں او لیول کے طلبا کو اردو پہلی زبان کے طور پر پڑھائی جا تی ہے، وہاں ادب کی شاہکار تحریریں سلیبس کا حصہ ہیں، لیکن ان اسکولوں میں بھی اساتذہ کی علمی قابلیت حوالہ جاتی کتب سے استفا دہ کرنے تک محدود ہے، کچھ بہت تیر مارتے ہیں تو ادھر ادھر سے تشریحات، تبصرے اور مضامین لے کر طلباء کے لیے ایک اور کتاب مرتب کردیتے ہیں۔ معصوم طلبا استاد کی قابلیت اور انتظامیہ اس مرتب شدہ کتاب کو استاد کی تخلیقی صلاحیت سمجھ کر اس کی تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ کر دیتے ہیں دوسری طرف ایسے اردو ٹیچرز کی کوچنگ سینٹرز میں مانگ بڑھ جاتی ہے۔

والدین کی بچوں سے عدم دلچسپی، سلیبس کی تشکیل کرنے والوں کا اس مضمون سے تغافل، اور استاد کی تساہلی اور اسکول انتظامیہ کی بے گانگی کا اندازہ کرنا ہو تو کسی اردو معلمہ کا پرچے کی جانچ کے معیارکو دیکھنا ہی کافی ہے۔ اردو پڑھانے والے اساتذہ، اسکول میں ہونے والے پرچوں کی جانچ میں کچھ ایسی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ وہ بچے جن کے جملے مبہم، اور مضمون میں انگریزی الفاظ کی بھر مار، تحریر موضوع سے غیر متعلق لیکن طالب علم اسی یا نوے فی صد مارکس لے کر مطمئن۔ اور اساتذہ بھی ستر فی صد نتیجہ دے کر اسکول انتظامیہ کو تھپکی دے دیتے ہیں۔

پھر جب یہ ہی بچے بورڈ کے سالانہ امتحان کے نتائج غیر تسلی بخش لاتے ہیں تو طلبا کی پرچے میں غیر ذمہ دارانہ کارکر دگی کو الزام دے کر اگلے سال پھر یہ ہی سلسلہ شروع کر دیا جا تا ہے۔ اردو معلمین کی بد دیانتی سے قطع نظر والدین بھی کافی حد تک ذمہ دار ہیں۔ بچے کے پرچے کی جانچ کرتے ہوئے ان کی نظر صرف اس بات پر ہوتی ہے کہ استاد نے بچے کے درست جواب پر بھی کم نمبر دیے ہیں اور کہاں استاد نے مارکس درست گننے میں چوک کر دی۔ اور یہ کہ بچے کی کاپی پر استاد نے جو جواب درست کیا تھا اب وہی غلط کیسے ہو گیا۔

ہم تو خیر اس سے بھی آگے کی بات کرتے ہیں۔ مارک شیٹ میں دیے گئے نمبر محض وقتی خوشی اور دائمی سراب ہے۔ ایک اچھے استاد کی کامیابی یہ ہے کہ وہ امتحانی نقطہ نظر سے نہیں، علم کی ترسیل کے جذبے سے طالب علم کو پڑھائے، اس میں پوشیدہ صلاحیت دریافت کر کے اسے مہمیز کرے۔ تب ہی طالب علم بہترین سائنسدان، معلم، لکھاری، ڈاکٹر، انجینیر اور سب سے بڑھ کر بہتر انسان بنیں گے۔

کامیاب زندگی گزرنے والوں کے ازہان میں ہمیشہ وہ ہی اساتذہ رہے جنہوں نے بچوں کی خوشی اور ان کے مزاج کو اولیت دیتے ہوئے ان کی خفیہ صلاحیتوں کو ابھارا۔ ایسے طلباء نے امتحانی پرچوں میں کبھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا، لیکن اپنے پسندیدہ مضمون میں اپنی گرفت اور زندگی میں ملنے والی حقیقی کامیابیوں کو اپنے پر خلوص اساتذہ کے نام کیا۔

اردو اساتذہ کو خاص طور پر ادب کے حوالے سے اپنا مطالعہ وسیع کرنا چاہیے۔ اردو زبان وادب کو اپنی اماں کی بولی سمجھ کر، پچھلی کلاس کے کسی بچے کی نوٹ بک اور ہاتھ میں کوئی حوالہ جاتی کتاب تھامے جماعت میں داخل ہو نے والے معلم کو چیٹر تو کہا جا سکتا ہے لیکن لفظ ٹیچر اس کے لیے منا سب نہیں۔

خاص طور پرپرائمری جما عتوں کے لیے اساتذہ کی بھرتی کے وقت ان کی علمی، تعلیمی استعداد تو ایک طرف ان کے لب و لہجے کو بھی صرفِ نظر کیا جا تا ہے۔ جب اردو کا استاد کچے ذہنوں کو غلط تلفظ کے ساتھ اردو پڑھا ئے گا تب اردو وہیں پہنچے گی جہاں سے اس کا خمیر اٹھا تھا۔
افسوس یہ نہیں کہ اردو تدریس کا معیار گر رہا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ افسوس بھی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).