انڈے کا فنڈا


آو سکھاوں تجھے انڈے کا فنڈا
یہ نہیں پیارے کوئی معمولی بندا
جب سے وزیر اعظم کی سو دن مکمل پر کنونشن سینٹر کی تقریب میں کی جانے والی تقریر سنی ہے نہ جانے کیوں یہ گانا بار بار یاد آرہا ہے ۔جس کمال مہارت سے وزیر اعظم نے عوام کی حالت بدلنے کا نسخہ بیان کیا ہے اس کی جتنی داد دی جائے کم ہے۔ شیخ چلی والا واقعہ تو سب نے بچپن میں پڑھا ہوگا ۔
شیخ چلی ایک دفعہ ایک انڈا خرید کرگھر واپس آرہا تھا کہ اس کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ میں اس انڈے کھانے کے بجائے مرغی کے نیچے رکھ دوں جس سے ا ایک چوزہ نکل آئے گا۔ پھر اس چوزے کو بڑا کروں تو وہ مرغی بن کر ہر روز انڈا دینا شروع کردے گی۔ ان انڈوں سے مزید چوزے نکلیں گے۔ جب بہت سارے چوزوں کی مرغیاں بن جائیں گی تو میں انہیں بیچ کر بکری خرید لوں گا۔ بکری کا دودھ بیچا کروں گا اور ہر سال بکری ایک بچہ بھی دے دیا کرے گی۔ جب چار پانچ بکریاں جمع ہوجائیں گی تو میں انہیں بیچ کر بھینس خرید لوں گا، پھر اس کا دودھ بیچنا شروع کروں گا تو اس سے میں بکریاں اور مرغیاں دوبارہ خرید لوں گا۔ پھر ان سے مزید جانور پیدا کرکے ایک اور بھینس خرید لوں گا ۔ پھر جب میرے پاس بہت سے روپے اکٹھے ہوجائیں گے تو میں اپنی شادی کروا لوں گا۔ شادی کے بعد بچے پیدا ہوں گے اور جب وہ بڑے ہو کر مجھ سے پیسے مانگیں گے تو میں انہیں یوں ماروں گا ۔ ۔ یہ سوچتے ہوئے چیخ چلی کا ہاتھ گھوما اور انڈا اس کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا جس سے وہ اونچی اونچی آواز میں رونا شروع ہوگیا۔ وہاں لوگ اکٹھا ہوئے اور انہوں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ایک انڈا ہی تو تھا، اتنا رونے کی کیا بات ہے؟
شیخ چلی نے جواب دیا:یہ انڈا نہیں بلکہ میری مرغیاں، بکریاں، بھینسیں، بیوی اور بچے، سب کچھ تھا ۔ ۔ ۔
شیخ چلی تو اپنی زندگی سنوارنے کے لیے خیالی پلاو پکا رہے تھے لیکن یہاں تو ملک کا وزیر اعظم پورے ملک کی اکانومی انڈوں ، مرغیوں اور کٹوں سے سنوار رہا ہے۔ نہ جانے عوام کا اس تقریر سننے کے بعد کیا حال ہوگا لیکن میں تو حالت وجد میں ہوں ۔سوچتا جاتا ہوں اور سر دھنتا جاتا ہوں ۔ میرے خیال میں ایسی نادر تقریر اور ایسا نادر خیال صرف ہمارے وزیر اعظم کے دماغ میں ہی آسکتا ہے۔ اب میں ہر تقریر اس امید پر سنوں گا کہ ہمارے وزیر اعظم ملکی مسائل کے حل کے لیے کیا نیا ،انوکھا اور اچھوتا خیال پیش کرتے ہیں ۔ ۔
ستر سال سے ملک میں سول اور ملٹری بہت سے حکمران آئے لیکن ملک کی حالت نہ بدل سکے بلکہ ہر آنے والی حکومت پہلے سے بدتر حالات میں ملک چھوڑ گئی ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ روایتی طریقوں سے ملک کے حالات بہتر کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ کسی بھی حکمران کی نیت پر شک نہ نہیں کررہا مگر شائد ان کے پاس آوٹ آف باکس سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی ۔موجودہ حکومت کو تو ابھی صرف سو دن ہوئے ہیں اور حکومت کی معیاد پانچ سال ہے۔2023تک تو ایسی اچھوتی تراکیب سے ملک کی حالت ہی بدل جائے گی۔ بس تھوڑا انتظار کیجئے اور دیکھتے رہیے سنتے رہیے اور سر دھنتے رہیے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).