بیٹیوں کی پیدائش اور ہمارا معاشرہ


ہمارے معاشرے میں عورت کی وقعت و حیثیت کیا ہے اس کا اندازہ تو بیٹیوں کی پیدائش پر روا رکھے جانے والے عمومی اظہار افسوس اور لعن طعن سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ عموما بیٹے کی پیدائش تک خاندان میں اضافہ جاری رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، چاہے اس کوشش میں پہلے سے موجود بیٹیوں کی بہتر صحت، خوراک اور تعلیم کو نظرانداز ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔

اگرچہ خواتین کو تعلیم و روزگار کے مواقع میسر آنے کے بعد معاشرے میں ان کی حیثیت کچھ مستحکم ہوئی ہے اور نتیجتا بیان کردہ رویوں میں آنے والی تبدیلی کسی حد تک محسوس کی جاسکتی ہے۔ محدود سطح پر ہی سہی کہیں بیٹی کی خواہش بھی رکھی جاتی ہے اور کہیں ولادت پر اظہار مسرت بھی کیا جاتا ہے یا کم از کم پیدائش کو روگ نہیں سمجھا جاتا۔ مجموعی صورتحال بہرحال یہ ہے کہ مذہبی و روحانی طور پر بابرکت سمجھے جانے والے مواقع پر محافل اور مساجد میں اولاد نرینہ کی ولادت کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ اگر تین بیٹوں کے بعد کہیں چوتھے بیٹے کی ولادت ہو تو شاید کسی کے دل میں بیٹی نہ ہونے کی کسک اٹھتی ہو لیکن اگر کہیں خدانخواستہ تین بیٹیوں کے بعد چوتھی بیٹی پیدا ہو جائے تو اس ‘قیامت’ کا اندازہ تو محض وہی لگا سکتا ہے جس کے اوپر یہ ٹوٹی ہو۔ زیادہ بیٹیاں پیدا کرنے کا خمیازہ نہ صرف ماں کو بھگتنا پڑتا ہے بلکہ زیادہ بہنیں ایک دوسرے کے لیے بھی عمر بھر کا طعنہ بن جاتی ہیں۔ خاص کر اس صورت میں کہ اگر ان بہنوں میں سے کوئی مزید کسی بیٹی کو جنم دینے کا قصور کر بیٹھے۔

ان ضمن میں ایک نکتہ اعتراض یہ سامنے آتا ہے کہ آخر ماں بھی عورت ہونے کے باوجود بیٹے کو ہی ترجیح دیتی ہے یا خواتین بھی دوسری خواتین پر اس قسم کا دبائو ڈالتی ہیں۔ اس قسم کا اعتراض کرنے والے یہ حقیقت نظر انداز کر دیتے ہیں کہ بیٹا پیدا نہ کرنے کا خمیازہ بنیادی طور پر عورت کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ دنیا میں آنے والے بچے کی جنس میں چاہے کسی کی مرضی کا بھی عمل دخل نہ ہو مگر اس ‘جرم’ پر کٹہرے میں محض عورت کو ہی کھڑا کیا جاتا رہا ہے۔ اتنی ہمت معاشرے کی نہیں ہے کہ مرد کو بھی شریک جرم ٹھرائے۔ آخر کتنے شوہر ایسے ہونگے جنہیں کبھی اس خدشہ کا سامنا کرنا پڑا ہو کہ بیٹا نہ ہونے کی صورت میں ان کی بیوی انہیں چھوڑ سکتی ہے یا دوسری شادی کا خیال دل میں لا سکتی ہے۔ یا کتنے داماد ایسے ہونگے جنہیں بیٹا پیدا نہ ہونے پر ان کے سسرال کی جانب سے دبائو یا طعنوں کا سامنا کرنا پڑا ہو۔

اہمیت اس بات کی نہیں ہے کہ بیٹے کے لیے دبائو خواتین و حضرات دونوں کی جانب سے ڈالا جاتا ہے، بلکہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ دبائو کا سامنا محض خواتین ہی کرتی ہیں۔ معاشرے میں اپنی حیثیت کمزور ہونے کے سبب خواتین تحفظ کے لیے خود سے وابستہ مرد رشتوں کی محتاج ہیں۔ اگر باپ اور بھائی کا سایہ سر پر ہوگا اور وہ خیال کرنے والے ہوں گے تو سسرال میں حیثیت مضبوط ہو گی، اگر بیٹے ہوں گے تو بطور بیوی حیثیت مضبوط ہو گی۔ اس لیے خواتین کا مرد رشتوں کو ترجیح دینا کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے۔ واضح رہے کہ خواتین کا یہ رویہ لائق تحسین ہرگز نہیں ہے، بلکہ ان کی بے بسی اور کمزوری کو ظاہر کرتا ایک انتہائی کریہہ رویہ ہے مگر عین فطری ہے۔ مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ جن ریاستوں نے خواتین کو حقوق فراہم کر دیے ہیں اور تعلیم اور روزگار جیسے وسائل تک ان کی رسائی ممکن بنائی، وہاں خواتین سے متعلق رویوں میں بہت حد تک تبدیلی آچکی ہے۔

امید کی جا سکتی ہے کہ بدلتا وقت ہمارے خطے میں بھی خواتین سے متعلق رویوں میں مثبت تبدیلی لے کر آئے گا، لیکن فی الحال تو صورتحال یہ ہے کے معاشرے میں بیٹی کی پیدائش کو جرم سمجھنا اور مجرم محض عورت کو ٹھہرا دینا یہ واضح کرتا ہے کہ ھمارے ہاں عورت ارزاں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).