چیف جسٹس صاحب ایک نظر ادھر بھی


چیف جسٹس صاحب۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ آپ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے قابل اور فرض شناس جج ہیں۔ انصاف کرنے والا چاہے نچلی عدالت کا ہو یا اعلی عدالت کا اس کا کام انصاف کی ہی فراہمی ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں۔ کہ آپ نے اپنی پوری ہمت، طاقت اور فہم سے وہ فیصلے کیے ہیں جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ سرزمین بے آئین کے اس بندہ ناچیز کی کیا جرات کہ آپ سے مخاطب ہو سکے۔ یا سوال پوچھ سکے۔ اس لئے نہایت ادب کے ساتھ عرض کررہا ہوں۔

جناب والا۔

آپ کو یاد ہوگا کچھ عرصہ پہلے آپ ایک نجی دورے پر سرزمین بے آئین گلگت بلتستان تشریف لائے تھے۔ جہاں آپ نے کافی سرگرمیوں میں حصہ لیا تھا۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ آپ گلگت بلتستان کے اُس دورے کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ وہ محبت جو یہاں کے عوام کے دلوں میں آپ نے اپنے لئے دیکھی، وہ خوبصورت چہرے جن کے ساتھ ملکر آپ خوشی سے جھومنے لگے تھے۔ یقینا وہ لمحے آپ کے لئے یادگار رہے ہوں گے ۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کے لئے بھی وہ لمحہ خوشی کا باعث تھا جب آپ نے فرمایا تھا کہ گلگت بلتستان کے لوگ محب وطن ہیں۔ میں نے ان سے بڑا محب وطن نہیں دیکھا۔ جی سر۔ بالکل آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ یہاں کے پہاڑ بھی محبت کی سرخیوں سے رنگے ہوئے ہیں۔ یہاں کے محب وطن لوگوں نے ہمیشہ پاکستان کی بقاء کے لئے اپنی جان کی قربانی دی ہے۔ آپ کے واپس جانے کے بعد بھی کئی جوانوں کو ہم نے لحد میں اُتارا ہے۔

محترم چیف جسٹس صاحب۔ آپ کو یاد ہوگا جب آپ ہنزہ کی خوبصورت وادی میں داخل ہو رہے تھے۔ تب بہت سی مائیں راستے میں پلے کارڈ اور بینرز اُٹھائے آپ کی منتظر تھی۔ یہ مائیں اپنے بے گناہ بچوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں پہ نوحہ کناں تھیں۔ ان خواتین کو دیکھ کر آپ وہی رک گئے تھے۔ اور آپ نے یقین دلایا تھا کہ آپ اُن کے بچوں کی فائلیں دیکھیں گے جو گلگت بلتستان کی سیاسی چالوں میں پھنس کر گلگت بلتستان کی مختلف جیلوں میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

محترم چیف جسٹس صاحب۔ آپ کے جانے کے بعد ان ماوُں کے کان ترس گئے ہیں یہ سننے کے لئے کہ آپ نے ان کی داد رسی کی۔ ان کی آنکھیں پتھرا گئی ہیں اپنے بچوں کے انتظار میں۔ وہ ہاتھ کانپنے لگے ہیں جن ہاتھوں سے وہ اُن بچوں کو سہلاتی تھیں۔ وہ بچے جو کبھی ان ماوُں کی خوشی کا سبب تھے۔ آج گلگت بلتستان کی جیلوں میں مختلف سزائیں کاٹ رہے ہیں۔ اُن ماؤں کو آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ ان کے بچوں کا آخر قصور کیا تھا؟ وہ مائیں ہی نہیں پوری گلگت بلتستان کی قوم کو یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان بچوں کا جرم کیا ہے۔ ہاں سر میں باباجان، افتخار اور ان کے دیگر ساتھیوں کی ہی بات کررہا ہوں۔

محترم جج صاحب۔ جب آپ وہ فائلیں کھول کر غور سے پڑھیں گے۔ تو اندازہ ہوگا کہ ظلم کی انتہا کیا ہوتی ہے۔ جن اونچے پہاڑوں کے اوپر رنگ برنگی لکھائی پاکستان زندہ باد کی نظر آرہی ہے۔ ان پہاڑوں کے درمیان رہنے والے لوگوں کے دلوں میں بہت گہرا درد چھپا ہوا ہے۔ وہ ایک اُمید کے ساتھ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کہیں سویرا ہوجائے۔ ظلمت کے اندھیرے گھروں میں کہیں تو انصاف کا سورج طلوع ہوگا۔ آپ سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔

کہ آپ کم از کم ان فیصلوں کو ٹٹول کر اس میں انصاف کی کوتاہیوں کو سب کے سامنے لاکر ایک مثال قائم کریں گے۔ تاکہ یہاں کے لوگوں کا انصاف پر سے یقین اُڑ نہ جائے۔ مجھے امید ہے جس خوشی اور مسرت کے ساتھ آپ سرزمین بے آئین سے پاکستان واپس لوٹے تھے۔ اسی مسرت اور خوشی سے آپ یہاں کے سیاسی قیدیوں کی فائلیں بھی پڑھ لیں گے۔ اور اُن امیدوں کو ٹوٹنے نہیں دیں گے جو مائیں آپ سے لگا بیٹھی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو کوئی بھی ماں کسی سے انصاف کی امید نہیں رکھے گی اور نہ اُس منصف پہ بیٹھے شخص پہ اعتبار کرے گی جس کا کام ہی انصاف کی فراہمی ہے۔ جس کے پاس وہ اختیار ہیں جو ناقص فیصلوں کو بدل سکتا ہے۔ جس کے قلم کی نوک سے کئی ماؤں کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ سکتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ بے خوف خطر ان فائلوں کو دیکھیں گے اور ان مظلوموں کی شنوائی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).