حکومت نے کوئی ٹرن نہیں لیا



کون کہتا ہے عمران خان یو ٹرن لیتا ہے۔ وہ خود اور قوم یوتھ بے شک کہتی رہے, حکومت نے آج تک کوئی یو ٹرن نہیں لیا۔ بلکہ صرط مستقیم کی اعلیٰ مثال قائم کئے ہوئے ہے اور کوئی یو ٹرن لئے بغیر اپنی باری کھیل رہی ہے۔ کھیل کے وہی گھسے پٹے اصول بلکہ بے اصولیاں پوری آب و تاب سے پی ٹی آئی حکومت کے آسمان پر جگمگا رہی ہیں جو نواز شریف کے دور حکومت کا حصہ رہی ہیں۔ نواز شریف پر مقدمات ان کے اپنے دور کے بنائے ہوئے ہیں، چل رہے ہیں۔ سعد رفیق وغیرہ پر بھی تفتیش انہی کے دور سے چل رہی ہے۔ شہباز کو کئی بار سیانے لوگوں نے سمجھایا لیکن وہ ادھر ادھر کرتے کرتے جیل جا پہنچے۔ اس میں عمران کا کوئی قصور نہیں۔ البتہ ان کا قوم سے کیا گیا ایک وعدہ (نہیں چھوڑوں گا) پورا ہو گیا۔ ابھی تک جو وعدے آپ نے عوام کے ساتھ کئے تھے ان میں سے یہ پہلا وعدہ ہے جو پایہ تکمیل کو پہنچا۔ باقی بھی آہستہ آہستہ پورے ہو جائیں گے۔ ابھی تو پانچ سال پڑے ہیں اور ہمیں کیا جلدی ہے؟

پی ٹی آئی حکومت کی افغان پالیسی اسی طرح چل رہی ہے جس طرح نواز شریف کے دور میں چل رہی تھی۔ سرحد پر باڑھ اسی طرح لگ رہی ہے بلکہ یہ باڑھ کچھ اور آگے بڑھ گئی ہے۔ افغان مہاجرین کے ساتھ محبت کا عمل بھی اسی طرح جاری ہے۔ اور افغان حکومت کے ساتھ معاملات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ انڈیا کے ساتھ بھی اس طرح دوستی دشمنی کے جذبات پر مبنی کہانی آگے بڑھتی نظر آتی ہے۔ کراچی میں چینی قونصل خانے پر انڈین دہشت گرد حملے کر رہے ہیں تو ادھر کرتار پور بارڈر کھولا جا رہا ہے۔ کلبھوشن اسی طرح پاکستان کی حفاظتی تحویل میں ہے جیسے نواز شریف کے زمانے میں تھا۔ صدر ٹرمپ اور امریکہ عمران خان اور پاکستانی حکومت کو اسی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں جس آنکھ سے نواز شریف کو تکا کرتے تھے۔ سعودی عرب اسی طرح پاکستان کی مالی مدد کر رہا ہے اور پاکستانی فوج اسی طرح سعودی شاہوں کی حفاظت کر رہی ہے جیسے نواز شریف کے دور میں کیا کرتی تھی۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ چین پاکستان کوریڈور اسی طرح آگے بڑھ رہا ہے جس طرح نواز شریف کے دور میں بڑھ رہا تھا۔ اور یہ اسی رفتار سے آگے بڑھتا چلا جائے گا۔

پنجاب کی افسر شاہی اسی طرح من مانی کر رہی ہے، جس طرح شہباز شریف نے انہیں تربیت دی تھی۔ ان کے تقرر و تبادلے بھی اسی طرح ہوتے ہیں۔ سیاستدان جہاں تگڑا ہے وہاں اس کی مرضی کے خلاف کوئی افسر نہیں لگ سکتا۔ پہلے بھی یہی رواج تھا۔ اب بھی یہی ہے۔ سیاستدانوں اور وزیروں کے بچے پہلے بھی ہتھ چھٹ تھے اب بھی وہ سر عام بے عزتی کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر کوئی اہلکار انہیں روکے تو الٹا اس کی نوکری خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ڈی پی او اور آئی جی تک کے افسر نادر شاہی عتاب سے بچ نہیں پاتے۔ ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ابھی تک پنجاب میں پی ٹی آئی کی بجائے شہباز شریف کی حکومت چل رہی ہے۔ یا وہی لوگ حکومت چلا رہے ہیں جو شہباز شریف کی حکومت چلایا کرتے تھے۔

ملک کے معاشی معاملات میں بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ڈالر کا ریٹ بڑھ گیا ہے۔ وہ تو اسحاق ڈار نے باندھ کے رکھا ہوا تھا کب تک باندھے رکھتے وہ خود بھی ہوتے تو کھول دیتے۔ بس پٹرول اور گیس بجلی کے نرخ بڑھنے سے تھوڑی مہنگائی ہوئی ہے وہ تو انٹرنیشنل ہے۔ اب دنیا میں پٹرول مہنگا ہوگا تو پاکستان میں کیسے سستا ہوگا۔ نواز شریف حکومت بھی وقت کے ساتھ پٹرول کی قیمت بڑھا دیتی تھی یہ بھی بڑھا دیتے ہیں۔ وہ بھی عوام کے رولا ڈالنے پر کم کر دیا کرتے تھے۔اب کوئی رولا ہی نہ ڈالے تو حکومت کیوں ریٹ کم کر کے عوام کی عادتیں خراب کرے۔

میرے ناقص خیال میں تو کوئی ایسی تبدیلی نہیں آئی جس کا ذکر عوام ایک دوسرے سے یقین کے ساتھ کر سکیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے ہمارے گاوں میں دو چودھری ہوتے تھے۔ کبھی ایک چیرمین بن جاتا کبھی دوسرا۔ الیکشن کے دنوں میں چار پانچ سرگرم قسم کے کارکن دونوں اطراف سے نعرے بازی کیا کرتے۔ گاوں کے غریب کمی اور مزدور ٹائیپ لوگوں کو کبھی ایک تو کبھی دوسری جانب سے کھانا کھلایا جاتا۔ الیکشن کے بعد فرق صرف اتنا پڑتا کہ پنچائیت جیتے ہوئے چودھری کے گھر ہوا کرتی۔ سرکار کی طرف سے کوئ پٹواری یا پولیس والا آتا تو جیتے ہوئے چودھری کی بیٹھک میں قیام کرتا۔وہیں اس کی خاطر توضع ہوتی جیتا ہوا چودھری ہمیشہ سرکاری پارٹی میں شامل ہو جایا کرتا۔ گاوں کی گلیاں آج تک ویسی کی ویسی ہیں۔ اسلام آباد کے شاہانہ کوچہ و بازار حاکمیت اعلیٰ کا وہی منظر پیش کر رہے ہیں جو سابقہ حکومتوں کے دور میں روا رکھا گیا۔ اسلام آباد میں بھی ابھی تک یہی تبدیلی آئی ہے۔ پنچائیت اب رائے ونڈ کی بجائے بنی گالا میں ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).