عبوری صوبہ ہاہاہا


29 نومبر کے وفاقی کابینہ اجلاس سے پہلے مین سٹریم میڈیا نے کسی پھسپھسے سورس کے حوالے سے یہ خبر بریک کر دی کہ کل کے وفاقی کابینہ اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کی منظوری دیں گے۔ اس خبر کے بریک ہوتے ہی سوشل میڈیا پر جی بی کے موقعہ پرست اور مفاد شناس کرایے کے سیاسی کارکن سوشل میڈیا پر اپنے تمام صلاحتوں کو بروئے کارے لاتے ہوئے نہ صرف ایک دوسرے کو مباک باد کے اچھوتے پیغامات بھیج رہے تھے بلکہ ساتھ ساتھ جی بی کے عظیم قوم پرست اور مٹی کی وفا کے کسم کھانے والے با ضمیر وں کو جس بے دردی اور اپنے خوشامدانہ الفاظ سے مسل رہے تھے، اگلے ہی دن جب ان کے صوبے کی غبارے سے ہوا نکلی تو فوراً گلگت بلتستانی بن گئے۔ برصغیر کی تاریخ میں یہ مفاد پرست ہی تھے جنہوں نے 40 کروڑ لوگوں کو 200 سال تک اغیار کی غلامی میں رہنے پر مجبور کیا۔ کرپال سنگ سے لے کر جنگ پلاسی کے غدار میروں تک یہ لو گ ہر دور میں موجود رہے ہیں۔

وفاقی جماعتوں کے در پر دیوار سے ٹیک لگائے لقمے کے منتظر یہ ضمیر فروش بھیکاری ہر اس وقت غل غپاڑہ کرتے ہیں جب ان کے مالکان کسی مصلحت کے تحت صوبے کا شوشہ چھوٹتے ہیں۔ یہ لوگ اس پھلجھڑی کو یا تو حقیقت سمجھ کر بیوقوف بنتے ہیں یا ان کو سرکاری طور پر بیوقوف بنے کا فرمان جاری ہوتا ہے۔ بہرحال پی پی، پی ٹی آئی، ایکس وائی زیڈ کے تسبیح جیب میں رکھنے والے یہ لوگ جب جہالت اور رسوائی کے تھیٹر پیش کرتے ہیں تو انہیں دیکھ کر گشبروم اور کے ٹو بے ساختہ روتے ہیں۔ اے کاش یہ لوگ اس مٹی سے وفا کرتے جس نے انہیں اپنے آغوش میں پر بیٹھا کر نازوں سے پالا اور اس پانی سے غداری نہ کرتے جس سے بنی خون آج بھی ان کے رگوں میں زندگی لے کر پھرتی ہے۔

جن لوگوں کو معاشرے کے تغیر ات کا احساس ہو وہ ضرور اس بات کو محسوس کرتے ہوں گے کہ جی بی کے لوگ معاشی بد حالی کی وجہ سے شہروں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس وقت گلگت بلتستان کی تقریباً نصف آبادی روزگار کی تلاش میں اپنے جنت نظیر علاقے کو چھوڑ کر پنجاب کے سموگ اور کراچی میں گندگی کے ڈھیر پر بسیرا بنائے ہوئے ہیں۔ جبکہ گلگت بلتستان میں معدنیات کے کان بلاسٹنگ کر کے گرائے جا رہے ہیں اور ٹریکٹروں پر لوڈ کر کے بڑے شہروں کے فیکٹروں کی طرف بھیجا جا رہا ہے۔ یہ معدنیا ت گلگت بلتستان کے لوگوں کی ملکیت ہیں اور ان پر سب سے پہلا حق اس علاقے کا ہے۔ ان معدنیا ت کو لوٹنے کے پرمٹ جاری کرنے کا حق لالاموسی ٰ، چنیوٹ یا سکھر کے کسی چیف سیکریٹری کا نہیں بلکہ ان پر حق ملکیت جی بی کے عوام کا ہے۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی افواہوں کے دم توڑنے کے بعد امید ہے کہ جو لوگ تاریخ سے نا بلد ہیں یا انہیں مسئلہ کشمیر کے متعلق معلوم نہیں، یا وفاقی جماعتوں کے جھوٹی تسلیوں اور تاریخی دلاسوں کے حقائق کو سمجھ چکے، انہیں چاہیے گلگت بلتستان کے قوم پرست اور گلگت بلتستان پرست جماعتوں کے سچ پر مبنی موقف کی کم از کم تائید کریں۔

جب تک کشمیر کا مسئلہ زندہ ہے گلگت بلتستان پاکستان کا صوبہ بن ہی نہیں سکتا۔ اور تاریخی و جغرافیائی اعتبار سے کشمیر اور گلگت بلتستان کا حل اگر ریڈ کلف ایوارڈ کی روشنی میں ہوا تو 99 فیصد یقین ہے کہ یہ علاقے پاکستان کا حصہ بن جائیں گے۔ لیکن ہندوستان دہشت گردی کا الزام لگا کر مذاکرات سے بھاگتا ہے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔ لہذا مسئلہ کشمیر پر بات چیت اور اس کے کسی مناسب حل ( جس میں یقیناً کشمیر اور جی بی کے لوگوں کی رائے شامل ہوگی ) تک جی بی کے لوگوں کو اپنے سماجی حقوق کے لئے آواز بلند کرنی چاہیے۔ وفاقی جماعتوں کے سقراطوں کو چاہیے صوبے کے شوشوں سے اپنے ہی لوگوں کو مضطرب کرنے اور بیوقوف بنانے کے بجائے حقیقی مسائل پر بات کریں اور حقیقی مسائل پر بات وفاقی جماعتوں کے جی حضوری میں ممکن نہیں۔ جس کے لئے لاڑکانوی، بنی گالوی اور رائیونڈین سے نکل کر گلگت بلتستانی بننا ضروری ہے۔

سید تندرست شاہ
Latest posts by سید تندرست شاہ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).