سائنس ایک علم یا ایجاد


یونیسکو کے کہنے پرہر سال پوری دنیا میں 10 نومبرکو سائنس کا عا لمی دن منایا جاتا ہے۔ اس سال عالمی مسائل سے نمٹنے کے لیے سائنس کا کیا کردار ہے عالمی مسائل کی پیچیدگیوں کو حل کرنے میں سائنس کس حد تک کارآمد ہے۔ سائنس کی افادیت اور اس کے مثبت اقدام کوسراہنا اور آگاہی فراہم کرناہے۔ مختلف اداروں کی طرف سے پوری دنیا میں تقریبات کا انعقاد کیا گیا اس دن کو منعقد کرنے کا مقصد لوگوں میں سائنس کی معلومات میں اضافہ ہو۔

عام طور پہ سائنس کو علم کہا جاتا ہے یعنی علم کو جاننا اور آگہی حاصل کرنا۔ لاطینی زبان میں سائنٹیاسے ماخوذہے۔ جس کے معنی الگ کرنا یا جدا کرنا ہے۔ حقائق پر مبنی علم، مفروضات کی روشنی میں تجربات کیے جاتے ہیں۔ سائنس کے لغوی معنی باقاعدہ علم وحکمت ہے۔ جبکہ اصطلاح میں موجوداتِ عالم ہے۔ ہم اپنے اردگرد کے ماحول سے بہت سی چیزیں سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ مختلف چیزوں کے لیے مشاہدہ کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر سائنس منظم طریقہ کار اور مطا لعے کے تحت کسی بھی علم کو جا ننا اور پھر نتائج مرتب کرنا۔

مخصوص غیر فنونی علوم انسانی سوچ بچار، حساب کتاب اور مطالعے سے حاصل کرتا ہے۔ اللہ نے انسان کو بہت سی خداداد صلاحیتوں سے نوازا ہے جسے بروئے کار لانے کے لیے جستجوکرتا ہے۔ چیزوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے لیے غور وخوض کرتا ہے۔ سوچنا، مشاہدہ کرنا پھرعمل کرنا سائنسی عمل کہلاتا ہے۔ سائنس کو دو بنیادی خطوط پر استوار کیا جاتا ہے جو کسی فطری عمل کے زمرے میں آئے فطری مظاہرہ کرے علومِ فطریہ کہلاتا ہے۔ دوسرا علم جو انسانی عوامل، سلوک اور معاشرے سے منسلک ہو معاشرتی علوم ہیں۔

انسان کے سائنسی مطالعہ کا سلسلہ زمانہ قدیم سے جاری ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا گیا اورمزید بہتری آتی گئی۔ عام طور پہ سائنسی ایجادات اور تحقیق کے لیے ڈاکٹریٹ کی ڈگری ایک با ضابطہ ڈگری سمجھی جاتی ہے اس ڈگری کے حصول کے بعد انسان میں سائنسی تحقیق اور چیزوں کے ایجاد کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے آغاز میں کسی ایک چیز پر تحقیق کے بعد ایجاد کامرحلہ آتا ہے۔ یہ تحقیق کسی چھوٹی چیز پر کی جاتی ہے تاکہ آسانی سے مراحل طے کیے جائیں۔

فطرت کے اسرارو رموز اور اسلوب علم کو قابلِ تکرار انداز میں سمجھا جاتا ہے۔ جو مستقبل کی تحقیق میں معاون ثابت ہوتی ہے اس کی مدد سے سے سائنسی پیشگوئیاں بھی ہوتی ہیں کئی مفروضات اور نظریات تجربات کی تیاری میں مدد دیتے ہیں۔ نظریات کا ایسا مجموعہ جنہیں منطقی انداز میں جوڑا جاتا ہے۔ فطری قوانین کومدِنظر رکھتے ہوئے سائنسی اصول وضع کیے جاتے ہیں۔ سائنسی ایجادات زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتی ہے۔ ہرآنے والا نیا سائنسدان گزشتہ سائنسدانوں کے مشاہدات اور تجربات کو سامنے رکھ کے نئے تجربات کرتا ہے۔

ایسا علم یا سائنسی طریقہ کارجس میں بہت زیادہ باریکیا ں ہوتی ہیں بغیر کسی توجہ کے عمل پذیر نہیں ہوتا۔ کائنات کی وسعت دیکھ کراس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے زمین اور آسمان میں جو کچھ موجود ہے کائنات کی تخلیق کے بارے میں علم حاصل کرتے ہوئے مشکلات کا سامنا کرنا اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا۔ میرے نزدیک سائنس ایک کیفیت کا نام ہے۔ سائنس دنیا کے کسی پہلو کی طرف اشارہ کرتی ہے تجربے سے ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے شواہد اور حقائق کے ذریعے تحریف کی گنجائش رکھتی ہے کسی قسم کا دعویٰ نہیں کرتی۔

تمام معلومات کا اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے عام ہونا، مراجعہ ثانی کرنا نا گزیر ہے ایسا علم جو قدرت کی رنگینیوں اور بدلتے رنگوں کو سمجھنے میں مد د دیتی ہے۔ کائنات کو سمجھنے کے لیے کچھ قوانین ہیں تاکہ فطری قوتوں کو ان تقاضوں کے مطابق قابو پایا جا سکے۔ جب ہم اپنے ارد گرد ہونے والی سر گرمیوں پر نظر رکھتے ہیں تو کچھ نہ کچھ حقائق ضرورموصول ہوتے ہیں سائنس کے کئی شعبے طبیعات، کیمیاء، حیاتیات، حیوانات، نباتات کا آپس میں واسطہ ہے۔

غیر جاندار چیزوں کا مطالعہ کرنے کے لیے اس کی ساخت کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔ مادے کے خواص اور ساخت پر باقاعدہ تحقیق کی جاتی ہے تاکہ دنیا میں رہنے والے دوسرے مادوں سے تعلق کی نوعیت کا پتا چلایا جا سکے۔ حقیقت میں تمام شاخیں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ سائنس کی شاخوں میں روابط ظاہر کرنے کے یہ بات کافی ہے کہ ان میں اشتراک پیدا کرنے کے لیے سائنس مادے اور توانائی کے گرد گھومتی ہے چاہے وہ جاندار ہے یا غیر جاندار۔

سائنس اور ریاضی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ریاضی کو سائنسی گروہ میں شامل کیا جاتا ہے ریاضی کی شاخیں سائنس کے کئی شعبوں کے کام آتی ہے۔ جن میں احصاء، حسابان نظریا عدداور وضعیت شامل ہیں۔ سائنسدان کی طرح ریاضی داں سائنسی اسلوب کی پیروی کر رہا ہوتا ہے دراصل ریاضی اعداد کے استعمال سے ساخت، مقدار، اشکال، پیمائش اور خواص کے ذریعے سائنس امور میں مدد کی جاتی ہے سائنس کی پہلی دریافت آگ تھی اس دریافت کے بعد انسانی دماغ میں خیال آیا اس سے کیسے کام لینا ہے اس توانائی کا باقاعدہ استعمال کیسے کرنا ہے۔

پھر انسانی عقل نے ایسی ٹیکنالوجی ایجاد کی۔ جس سے زندگی آسان ہو گئی۔ پہیہ ایجاد کیا کہ گول چیز جلدی حرکت میں آ جاتی ہے یہ خیال یقیناسائنسدان کے دماغ میں زمین گول ہے کو مدِنظر رکھتے ہوئے پہیہ دریافت کیا ہو گا۔ سائنس کی بدولت ایسی ایجادات ا ختراع ہوئیں جس سے زمینی فاصلہ سمٹ کر رہ گیا۔ سائیکل سے لے کے ر یل گاڑی، بحری جہاز سے لیکرہوائی جہازکے ذریعے فاصلہ انتہائی کم وقت میں طے ہو جاتا ہے۔ ٹیلیفون اور موبائل نے انسانی زندگی کوآسان بنا دیا ہے ان کی مدد سے ایک دوسرے کے بارے میں معلومات حاصل کرلیتے ہیں۔

دور بیٹھے ہم کسی سے بھی بات کر سکتے ہیں ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کے ذریعے دنیا کے تمام حالات سے باخبر رہتے ہیں غرض بجلی کی پیداوار سے ہر کوئی فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ گھروں، فیکٹریوں اور دفاتر میں اس کے استعمال سے زندگی کو آسان بنایا گیاپھر صنعت، ذراعت اور طب کے میدان میں خاصا فائدہ ہوا۔ جہاں سائنس کے ان گنت فوائدہیں وہاں اس کے ایسے نقصانات ہیں جن سے بچنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔

اس ضمن میں اسلحہ اورکئی جان لیوا ہتھیاہیں جبکہ کئی منفی اثرات ہیں۔ انسان کے سائنسی علم کا سلسلہ زمانہ قدیم سے چلتا آ رہا ہے۔ سائنس کے میدان میں ترقی ہر ملک کے لیے ناگزیر ہے۔ ہمیں ملکی سطح پراپنے تمام تعلیمی اداروں میں سائنس کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تا کہ بچوں میں سائنسی علم کے بارے میں زیادہ علم و شعوربیدار ہو۔ پاکستان میں بد قسمتی سے سائنس کی تعلیم پر توجہ نہیں دی جاتی۔ سب سے کم تخلیق کرنے والے ممالک میں پاکستان کا شمار 109 نمبرپرآتاہے۔ جبکہ سوئٹزرلینڈسب سے زیادہ سائنسی تخلیقات

کر نے والا ملک ہے۔ سائنس کی معاشرتی ترقی کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ڈاکٹر عبدالسلام پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے فزکس کے شعبہ میں تحقیق میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ پوری دنیا میں ان کی ذہانت اور خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ البرٹ آئن سٹائن کے بعدنرگس ماولہ نے کششِ ثقل سے متعلق تحقیق پیش کی جو کوئی اور نہ کر سکا۔ جنہوں نے کششِ ثقل کی لہروں کی نشاندہی پربراہ ِ راست کام کیا جس کی بدولت انڈیکیٹرکی مدد سے فلکیات کے رازجان پائیں گے۔ وقت کی تبدیلی کے ساتھ تعلیمی رجحان میں سائنسی علوم کی ضرورت ہے۔ اپنی سمجھ بوجھ اور کھوج کے مطابق معاشرتی ترقی میں ہاتھ بٹانے کی ضرورت ہے۔ ہم چاہے تو اس فائدہ اُٹھا سکتے ہیں ان نظریات کو منطق اور تو جیہات کے پیمانوں سے تراشہ جاسکتاہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).