دوستو حوصلہ رکھو


میں 1990 سے لیکر 2013 تک نواز شریف کو ووٹ دیتا رھا اور اسکی پارٹی کا ہمدرد رھا۔ درمیان میں جماعت اسلامی کا ہمدرد بھی رھا اور ووٹ بھی دیا۔ اب اگرچہ ووٹ تو جماعت اسلامی کو نہیں دیا۔ لیکن ہمدردی ہے ۔ مرحوم ارشاد احمد حقانی بھی پہلے جماعت میں تہے ۔ بعد میں نکل گئے۔ انھوں نے کسی جگہ لکھا کہ آدمی جماعت اسلامی سے نکل جاتا ہے ۔ لیکن جماعت اسلامی آدمی کے اندر سے نہیں نکلتی۔ میرے اندر سے بھی جماعت اسلامی نہیں نکل سکی ۔ شاید جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے لٹریچر کا اثر ہے کہ میری طبیعت میں اعتدال ہے۔ مذھبی اور مسلکی شدت پسندی سے دور ھوں۔ فرقہ واریت سے نفرت ہے ۔ اور یقین رکھتا ھوں کہ جنتی اور جہنمی ہونے کا فیصلہ اللہ روز حشر میں کرے گا۔

تو اب بشرط زندگی کم ازکم دس سال تو پی ٹی آئی اور عمران خان کو دوں گا ۔ ان شا اللہ۔ یہ اطلاع اس لیے کر رھا ھوں کہ کچھ دوست چہ مگویوں میں مصروف ھیں کہ شاید میں یعنی ابرار حسین  پی ٹی آئی سے مایوس ھو گیا ھوں ۔ تو ایسی کوئی بات نہیں۔ آج کل ذرا شعرو شاعری اور ادبی لائن پر چڑھ گیا ھوں لیکن پی ٹی آئی سے میں 150 فیصد مطمئن ھوں ۔ کیونکہ مجہے بڑے بڑے ڈاکوؤں کی چیخ و پکار سنائی دے رھی ہے۔ تو میں محسوس کر رھا ھوں کہ سمت درست ہے۔ رفتار میں کمی بیشی ھوتی رھتی ہے ۔ کیونکہ جمے جمائے مافیا کے اس نظام کو بدلنے میں یہ سارے ڈاکو ہر حالت میں رکاوٹ ڈالیں گے ۔ باریاں لینے والے اور مک مکا کرنے والے اتنی آسانی سے ہار نہیں مانیں گے ۔ یہ آخری حد تک جائیں گے ۔ اس موقع پر ریاستی اداروں اور انتظامیہ و بیوروکریسی میں موجود نیک نیت اور دیانت دار لوگ اپنے اپنے حصے کے فرائض اچھی طرح نبھائیں ۔ اور حکومت کے دست و بازو بنیں ۔
اصل کام یہ ہے کہ نظام کو اور اس کو چلانے والوں کی سوچ میں تبدیلی پیدا کی جائے۔ یہاں پر ھمارے حکمران اپنے خزانوں کو بھرتے ھیں۔ پھر اپنے عزیزواقارب اور سیاسی چمچہ گیری کرنے والوں کو پالتے ھیں۔ پھر کچھ ٹکڑے ھم عوام کی طرف بھی اچھال دیتے ھیں۔ اور ھم سب کچھ بھول بھال کے ان ٹکڑوں کو لوٹنے میں مصروف ھو جاتے ہیں۔ کچھ منصوبے اور کام ایسے کرتے ھیں جو نظر آئییں اور پھر انکی بنیاد پر اگلی دفعہ ووٹ لے سکیں ۔ سڑکیں بنا دی جاتی ھیں اور پھر وہ ٹوٹتی ھیں تو اگلی باری ان سڑکوں پلوں اور سکولوں کی دیواروں کی تعمیر کے وعدے پر دوبارہ ووٹ مانگے جاتے ھیں اور یہ سلسلہ جاری رھتا ہے۔
ایوب خان کے بعد کسی دور میں کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا۔ کیوں غفلت برتی گئی ۔ بجلی کی پیدوار کے لیے نئے پراجیکٹ نہ لگائے گئے۔ اور آج ملک بجلی کمپنیوں کے ہتھے چڑھا ھوا ہے ۔ کسی نے تعلیم کے میدان میں جوھری تبدیلی لانے کا پروگرام اور پالیسی نہ دی ۔ پورے ملک میں یکساں نصاب اور ذریعہ تعلیم اردو زبان بنانے کی طرف کوئی اقدامات نہ ہوئے۔ قسم قسم کے نصاب اور ہر چند سال بعد زبان کبھی اردو اور کبھی انگریزی کی گئی۔ یاد رہے کہ زبان اور ایک قومی نصاب ملکی وحدت کی بنیاد ھوتا ۔ چکوال کے سکول میں پڑھنے والا بچہ وہ سوچتا ہے جو گوادر کے سکول کا بچہ ۔ اس کےلیے ایک نصاب ضروری ہے ۔ طرح طرح نصاب بچوں میں احساس محرومی اور کمتری پیدا کرتے ھیں۔ گویا حکومتوں کی نہ کوئی سمت تھی نہ پالیسی۔ ایک پالیسی تھی ڈنگ ٹپاٶ پالیسی ۔ اور کرپشن سے اتنے پیسے بناو۔ کہ اگلے انتخابات کے لئے کام آئییں

تھر اور چولستان میں عرصہ دراز سے پینے والے پانی کا کوئی مستقل بندوبست نہ ھوا۔ اور بارھا ھم سنتے رہے کہ خشک سالی سے آدمی اور جانور مر گۓ۔
میرٹ کا کوئی نظام نہ بنا۔ تاکہ غریب آدمی کا بچہ میرٹ پر کوئی جاب یا عہدہ حاصل کر سکتا ۔ بلوچستان ھمیشہ سلگتا رھا ۔ کوئی ٹھوس اقدامات انکی محرومیاں دور کرنے کےلئے کسی دور میں نہ اٹھاۓ گۓ۔ ملک میں فرقہ وارانہ تنظمیں بنتی رھیں ۔ اور انکی کی بیخ کنی کرنے کی بجاۓ ان سے چشم پوشی کی پالیسی بنائی جاتی رھی ۔ اور ان کو اپنے مقاصد کے استعمال کیا جاتا رھا۔ یہ ھلکی سی تصویر ہے ۔ جس سے ثابت ھو جاتا ہے کہ جو بھی حکومت آئی۔ وہ اپنے ھاتھ پاٶں مضبوط کرنے کی فکر میں رھی۔
پیپلز پارٹی سوشل ازم کا نعرہ بلند کر کے آئی۔ لیکن وڈیروں اور جاگیر داروں کو قابو نہ کر سکی ۔ کم ازکم یہ تو کر دیتے کہ زمین کی ملکیت کی حد مقرر کر جاتے تو آج سندھ اور جنوبی پنجاب کا کسان خوشحال ھوتا۔ کیونکہ بڑے جاگیر داروں کی فالتو زمین کے مالک یہ ھاری اور مزارعے بن جاتے ۔ اپنی زمین پر وہ محنت کرتے تو پاکستان حقیقی معنوں زرعی ٹائیگر بن جاتا۔ ھمارا پنجاب 1960 تک اتنی گندم پیدا کرتا تھا کہ سارے ملک کو پنجاب پال سکتا تھا۔ لیکن ھر آنے والی حکومتوں کی چشم پوشی اور ڈنگ ٹپاٶ پالیسی کی وجہ سے نہری نظام تباہ ھوتا گیا ۔
میری نظر میں سر زمین پاکستان سے سب سےبڑا ظلم جو ان ماضی کی حکومتوں نے روا رکھا۔ وہ یہ تھا کہ پانی کے معاملے میں بھارت کی طرف سے صرف نظر کیے رکھا ۔ وہ ھمارے دریاٶں پر ڈیم بناتا رھا ان کے رخ موڑتا رھا ۔ لیکن کسی بھی حکومت نے انکی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی ٹھوس کوشش نہ کی۔ عالمی بینک کے سامنے مقدمات کی پیروی ڈھیلے ڈھالے انداز میں کی گئی۔ اس کا ذمہ دار انڈس واٹر کمشنر جماعت علی شاہ بھی ہے جو اب کینیڈا فرار ھو چکا ہے ۔ اس کے ساتھ تما م ماضی کی حکومتیں بھی ذمہ دار ھیں ۔ لیکن ان سے حساب لینے والا کوئی نہ تھا ۔
یہ حکمران اپنے آپ کو کسی کے سامنے جوابدہ بھی نہ سمجھتے تھے ۔ یہ تھوڑی ھلچل جو پچھلے چند سالوں میں ھمیں نظر آئی۔ یہ عمران خان کی وجہ سے تھی ۔ وہ مسلسل ان کے پیچھے پڑا رھا ۔ ورنہ ایک اسمبلی ممبر نے کہا تھا ۔میاں صاحب پروا نہ کریں عوام بہت جلد پانامہ کو بھول جائیں گے۔ اسکی بات درست تھی ۔ عوام نے بھول ھی جانا تھا۔ مگر خان نے جگائے رکھا۔

اب خان وزیراعظم ہے ۔ الحمدللہ۔۔۔۔۔ دوست پراپوگینڈے سے متاثر نہ ھوا کریں اور دل چھوٹا نہ کیا کریں۔ ھمیں کچھ حقیقت پسند ھونا چاھیے۔ ھمیں سیلانی نہیں ھونا چاھیے ۔ کہ کبھی ادھر لڑھک گۓ اور کبھی ادھر۔ کسی نے کچھ مخالفت کر دی تو گھبرا گۓ ۔ انشااللہ بہت بہتری آئے گی ۔
جس سسٹم کو بگڑنے میں چالیس یا اس سے زیادہ سال لگے ھوں ۔ اس کو درست کرنے میں دس پندرہ سال تو ضرور لگیں گے ۔ اگر آپ لوگ کہیں کہ پی ٹی آئی والے غلطیاں کر رہے ھیں ۔ تو اب آسمان سے فرشتے نہیں اتریں گے ۔ جو حکومت کریں گے ۔
میں محسوس کرتا ھوں کہ دوسروں کی نسبت خان کی حکومت سے زیادہ امید وابستہ ہے ۔ مجہے خوشی ہے کہ عمران ھماری عوام کی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے بھی واقف ہے ۔ مرغیاں اور انڈے بیچ کر اپنی آمدن بڑھانے والے لوگوں سے بھی واقف ہے۔ ھم خود گاؤں کی زندگی میں اچھی طرح جانتے ھیں ۔ عورتیں انڈے بھی بیچتی ھیں ۔ مرغیاں بھی دودھ بھی اور دیسی گھی بھی۔ مجھے خوشی ہے میرا وزیراعظم جانتا ہے کہ دیہاتوں میں کس طرح کے پاپڑ بیلنے پڑتے ھیں۔ وہ لوگ ھی مذاق کر سکتے ھیں ۔جن کی میز پر ناشتے میں ابلا یا فرائی انڈہ لازمی ھوتا ہے ۔ لیکن وہ نہیں جانتے کہ اس کے پیچھے کتنی محنت پوشیدہ ہے ۔ پولٹری اور لائییو سٹاک ھمارے بڑے ذرائع آمدن ھیں ۔

باقی عرض تمام دوستوں سے کرنا تھی کہ فیس بک اور وٹس اپ اور دوسرے سوشل میڈیا پر جو مواد ھوتا ہے اس میں سے اکثر جعلی من گھڑت اور جھوٹ ھوتا ہے ۔ شخصیات کے کردار کو جھوٹ موٹ مسخ کیا جاتا ہے ۔ ایسے بیانات اور کام جو ان لوگوں نے نہیں کیۓ ھوتے ۔وہ ان لوگوں سے منسوب کر دیۓ جاتے ھیں ۔ ھر پارٹی کے لیڈران کی کردار کشی کی جاتی ہے ۔ سیاسی لوگوں کے علاوہ دیگر لوگوں کی بھی جھوٹ موٹ مٹی پلید کی جاتی ہے ۔اور یہ ھر سیاسی پارٹی کے بارے میں ھوتا ہے ۔ پی ٹی آئی کے علاوہ دوسری پارٹیاں اور انکی لیڈر شپ بھی اس جھوٹے پروپوگینڈے کا شکار ھوتی رھتی ھیں ۔ میرے بہت سے متقی اور پرھیز دوست بھی ایسی پوسٹیں بلا دھڑک شیئیر کرتے رھتے ھیں ۔ میں پہلے بھی دبے الفاظ میں انھیں منع کرتا تھا ۔ اب بھی کرتا ھوں ۔ کیونکہ میری محدود سوچ کے مطابق جھوٹی پوسٹ کو شیئر کرنا بھی جھوٹ کو پھیلانے کے برابر ہے ۔ اور ھو سکتا ہے ھمیں روز محشر اس کا جواب دینا پڑ جاۓ ۔ ھمیں اس معاملے کو ھلکا نہیں لینا چاھیے اور خواہ مخواہ کا ایک گناہ اپنے نامہ اعمال میں درج نہ کروائییں ۔ آپ حکومت کی کسی غلطی پر جی بھر کر اس کے لتے لیں۔ سیاسی اختلاف کریں ۔ مگر جھوٹی پوسٹیں نہ شیئر کریں۔ میں نے اپنی فیس بک آئی ڈی سے ایسی تمام پوسٹیں مٹا دی ھیں ۔ لیکن اس کے باوجود آپ کو کچھ غلط نظر آئے تو بتائیں وہ پوسٹ ھٹا دوں گا۔

راجہ ابرار حسین عاجز
Latest posts by راجہ ابرار حسین عاجز (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).