حکومتی وعدے اور عوام کا حال


پاکستانی سیاست کا جائز ہ لیا جائے تو یہاں تین طرح کی سیاسی شخصیات نظر آتی ہیں۔ پہلی قسم ان سیاستدانوں کی ہے جو طویل جدوجہد کے بعد لیڈر تسلیم کئے گئے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے طویل سیاسی جدوجہد کی، نہ دن دیکھا نہ رات اور توجہ اپنے مقصد پر مرکوز رکھی۔ جناح کی اس عظیم جدوجہد کے ثمر میں پاکستان بھی وجود میں آیا اور دنیا نے محمدعلی جناح کو قائداعظم تسلیم کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا شمار بھی لیڈران کی اسی قسم میں ہوتا ہے جنہوں نے کسی مقصد کے تحت سیاست کی اور ذوالفقارعلی بھٹو سے قائدعوام تک کا سفر طے کیا اور اسی سفر میں اپنی جان دے دی۔ عمران خان نے بھی جب سیاست میں انٹری کی تو انہیں بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ عمران خان بھی ان ناکامیوں سے لڑتے لڑتے کامیاب ہو ہی گئے اور وزیراعظم پاکستان بن گئے۔

پاکستان میں پائی جانے والی سیاسی شخصیات کی دوسری قسم کو کسی بھی جدوجہد کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ لیڈر بائے برتھ یا پیدائشی سیاستدان ہوتے ہیں۔ عموما ان کے والد یا والدہ لیڈر ہوتے ہیں لہذا لیڈر شپ انہیں میراث میں مل جاتی ہے۔ مریم نواز، حمزہ شہباز، مونس الہی، اعجازالحق اور کسی حد تک بلاول کا شمار اسی قسم کے لیڈران میں ہوتاہے۔ یہ قسم کبھی کبھار اس وجہ سے بھی وجود میں آ جاتی ہے کیوںکہ بڑی تعداد میں ان کے مریدین ہوتے ہیں یا پھر یہ کسی قوم کے سردار یا سربراہ ہوتے ہیں۔ سیاسی قائدین کی تیسری قسم کے متعلق کسی کے علم نہیں کہ یہ کہاں سے آتے ہیں کیسے آتے ہیں راتوں رات کیسے لاکھوں لوگ جمع کرتے ہیں، اپنی بہترین تشہیر کرتے ہیں اور پھر کچھ ہی عرصے بعد جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔

عوام کو اپنے مسائل کے حل کے لئے لیڈروں کی پہلی قسم سے زیادہ امید ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان وزیراعظم بن گئے۔ ان کی جدوجہد کاعوام نے اثر لیا۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ انہیں وزیراعظم کسی امپائر نے بنایا ہے۔ لیکن 2018کے انتخابات میں رپورٹنگ کے دوران مشاہدہ کیا کہ ہر زبان پر یہی جملہ تھا سب کو آزما لیا اب ایک موقع عمران خان کے بھی دیں گے۔ عمران خان نے ہر سیاست دان کی طرح جلسوں میں بڑے بڑے دعوے کئے۔ ایسا لگتا تھا کہ سو دن میں پاکستان کا نظام مکمل بدل جائے گا۔ کپتان اور ان کے ساتھی ہر جگہ ہر جلسے میں سو دن کی بات کرتے۔ تحریک انصاف کے جن نعروں نے عوام کو اپنی طرف مائل کیاان میں سے سب سے اہم روزگار اور گھروں کی فراہمی کا نعرہ تھا۔ ساتھ ہی عوام کو یقین دلایاگیا کہ ڈالر کی قیمت اتنی کم ہوجائے گی کہ ڈالر او ایل ایکس پر فروخت ہوں گے، پیٹرول کی قیمت انتہائی کم کردی جائے گی۔ سیاسی شخصیات بشمول وزیاعظم پروٹوکول نہیں لیں گے، سابقہ حکومتوں کی طرح آئی ایم ایف سے بھیک نہیں مانگی جائے گی۔ تین ماہ تک بیرون ملک دورے نہیں ہوں گے، دوروں کے لئے خصوصی طیاروں کا استعمال نہیں کیا جائے گااور اہم عہدوں پر تعیناتیاں میرٹ پر ہوں گی۔

حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہی کراچی کے عوام کی بڑی تعداد بے روزگار کر دی گئی۔ بلاشہ ان کا کاروبار غیرقانونی تھا لیکن کئی سالوں سے کام کرنے والے ان افراد کو متبادل فراہم کرنا کیا حکومت کی ذمے داری نہ تھی؟ پروٹوکول نہ لینے کی باتیں بڑی گاڑیوں سے اڑتے غبار میں گم ہو گئیں۔ حکومت نے سابقہ حکومتوں جیسے ٹھاٹ ہی اپنائے۔ حکومت ملتے ہی بیرون ملک دوروں کا آغاز ہوگیا اور ان دوروں کے لئے خصوصی طیاروں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ڈالر بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ پیٹرول کی قیمتوں نے عوام کے جیبوں کو آگ لگا دی۔ کئی افراد کو دیکھ کر ایسا گمان ہوا کے من پسند لوگوں کو عہدے دئے گئے ہیں اور من پسند لوگوں نے من پسند عہدے لئے بھی۔ آئی ایم ایف سمیت سعودی عرب اور چین سے بھی قرضے کی اپیل کی گئی۔

دوسری جانب سندھ کے عوام نے بھی بھٹو کے نواسے سے بیحد امیدیں لگائیں۔ حکومت کے سو دن مکمل ہوئے تو پیپلز پارٹی نے حکومت سے سو دن کا حساب مانگنے کا نعرہ لگا دیا۔ پیپلز پارٹی نے الیکشن سے قبل کئی نعرے لگائے تھے۔ لیکن تحریک انصاف کی کارکردگی کی طرح وہ نعرے بھی بس نعرے ہی نظر آئے۔ سو دنوں میں سندھ میں ایک بھی میگا منصوبے کا آغاز نہ ہوا۔ 970 ترقیاتی منصوبوں میں سے کسی کے بھی فنڈز جاری نہ ہوئے۔ پانی کے منصوبوں میں ایک گیلن کا بھی اضافہ نہ ہوسکا۔ نہ سند ھ کے عوام کو سرکاری نوکری ملی نہ کوئی بس سروس شروع ہوئی۔ بھوک مٹاؤ پروگرام بھی کاغذوں کی بھوک مٹاتا رہا۔ یوریا سبسڈی، جیل ریفارم اور گنے کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نظر نہ آئی۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سو روز میں کسی بھی حکومت کی کارکردگی کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ عوام کو انتظار تو کرنا ہوگا اور صبر سے کام لینا ہوگا۔ لیکن ان سو دنوں میں وفاقی حکومت، حکومت پنجاب، خیبر پختونخواہ، بلوچستان حکومت اور سندھ حکومت عوام سے کئے وعدے پورے نہیں کرسکیں۔ حکومتوں کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ پارٹی سربراہان کو اپنے وزرا کو ہدایات دینا ہونگی کہ بیان بازی، پروٹوکول، تبادلوں، پریس کانفرنسوں اور فلمی اسٹنٹنس سے زیادہ توجہ کارکردگی پر دیں۔ پانی کی جس کمی کا سامنا ہے اس کے لئے پلینگ کی جائے، نئی بس سروسز کا آغاز کیا جائے، خسارے میں چلنے والے اداروں کے لئے پالیسیاں سامنے لائی جائیں، سرکاری ملازمتیں دی جائیں اور عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).