غالب کے حضور


ہے آدمی بجائے خود ایک محشر خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں، خلوت ہی کیوں نہ ہو

رات کے تقریبا ً دو بج رہے تھے، میں نے نیا تالیف شدہ مینیو سکرپٹ پروفیسر کو ای میل کیا اور بستر پر دراز ہو گیا، لیکن عادت سے مجبور سونے سے پہلے فون کو کھولنا نہیں بھولا۔ دیوانِ غالب کے نام سے محفوظ ایپ کو کھولا تو مندرجہ بالا شعر سامنے آیا جسے پڑھنے کے بعد موبائل کو لاک کرکے سرہانے رکھ دیا کہ میں مذکورہ شعر کا مزہ کرکرا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ شعر دماغ کے تار ہلا رہا تھا کہ اسی دوران آنکھ لگ گئی۔

اپنے آپ کو پرائمری سکول میں دیکھتا ہوں، جسے دو اطراف سے کچی سڑک نے گھیر رکھا ہے جہاں سے وقفے وقفے سے کوئی راہگیر پیدل یا سائیکل پر گزرتا ہے، وقفے وقفے سے کوئی کسان اپنے روزمرہ کے مشاغل کے لیے گزر جاتا ہے الغرض رونق لگی ہوئی ہے، سکول کے تیسری طرف برسیم کی فصل لہلا رہی ہے جب کے چوتھی طرف خالی زمین ہے جس میں سفید کلر ابھرا ہوا ہے اور دور سے ایسے لگ رہا ہے جیسے نمک کی برکھا برس گئی ہو۔ سردیوں کی نرم دھوپ میں بچوں نے دو کالموں کی شکل میں کھاد کے خالی تھیلے بچھائے ہوئے ہیں کہ ٹا ٹ پھٹ جانے کے سبب قابل استعمال نہیں رہے اور اس کا آسان حل یہ نکالا گیا ہے کہ ہر بچہ اپنے بیٹھنے کے لیے گھر سے خالی تھیلا اپنے بستے میں ڈال کے لے آتا ہے اور اس پر بیٹھ کر خاکبازی کا سبق حاصل کرتا ہے۔

تختہ سیاہ لکڑی کے سٹینڈ کے سہارے استاد کی کرسی کے برابر کھڑا کیا گیا ہے جس کے کناروں پر سفید چاک بہت نفاست کے ساتھ اٹکا دیے گئے ہیں۔ تفریح کے وقفے کی گھنٹی بجتی ہے اور بچے اپنی کتابیں بستے میں ڈال کر تفریح کے لیے چلے جاتے ہیں۔ میں بھی اپنی کتابیں بیگ میں ڈال کے اٹھنے لگتا ہوں اور کیا دیکھتا ہوں کہ ”استاد طالب“ کی بجائے ”استاد غالب“ کرسی پر تشریف فرما ہیں، ہڑبڑا کے اٹھتا ہوں اور ان کے سامنے مؤدب کھڑا ہو جاتا ہوں کہ برصغیر میں پیدا ہونے والی چند جینئس شخصیات میں سے ایک کو دیکھ رہا ہوں۔

تھوڑے وقفے سے غالب کی آواز کان میں پڑتی ہے ”بیٹھ جاؤ، اب مجھے سامنے دیکھ کر بڑے مؤدب بن رہے ہو، ویسے جو تم لوگوں نے میرے اشعار کی درگت بنائی ہے میں جانتا ہوں“ ۔ شرمندہ ہو کے بیٹھ جاتا ہوں۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں کیا کہوں خیر خاموش رہتا ہوں۔ پھر سوچتاہوں غالب صاحب سامنے بیٹھے ہیں کیوں نہ کچھ باتیں سن لی جائیں زندگی میں کام آئیں گی اور ہو سکتا ہے اسی بہانے کوئی شعر بھی سنا دیں۔ اور تو کوئی بات بن نہ پڑی بس مروجہ انٹرویوز کی طرز پر سوال ہی پوچھ لیا۔

استاد جی اگلی دنیا کے کیا حالات ہیں؟
غالب:
وسعت رحمت حق دیکھ کہ بخشا جائے
مجھ سا کافر کہ جو ممنون معاصی نہ ہوا

میں : اپنے سفر آخرت کا کوئی واقعہ تو سنائیے
کہنے لگے ”فرشتے جنت کی طرف لے کے جا رہے تھے کہ دروازے پر دیکھا کہ زاہدو رضوان محو گفتگو ہیں، ان کو احتراماً سلام کیا تو حضرت زاہد مجھے دیکھتے ہی چلائے ’یہی ہے غالب یہی ہے غالب‘ اور لگے رضوان کو شکایت کرنے، وہ تو خدا بھلا کرے رضواں کا کہ اس نے مجھے نادان سمجھتے ہوئے درخور اعتنا نہیں سمجھا۔“

میں : کس بات کی شکایت کر رہے تھے؟
غالب: وہ جو میں نے اس کو چھیڑا تھا کہ
ستائش گر ہے زاہد، اس قدر جس باغِ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بیخودوں کے طاق نسیاں کا

میں : پھر جنت میں کیسے گزر رہی ہے زاہد و ناصح کے ساتھ
غالب : (مسکراتے ہوئے )
تا کرے نہ غمازی کر لیا ہے دشمن کو
دوست کی شکایت میں ہم نے ہمزباں اپنا

میں : استاد جی اگر آپ شاعر نہ ہوتے تو کیا ہوتے (بک رہا ہے جنوں میں کیا کیا کچھ ( زیرلب) ) ؟
غالب:
”سو پشت سے ہے پیشہ ء آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے ”
( میں مسکرا دیا)

”مجھے پتہ ہے تم کیوں مسکرا رہے ہو، تمہارا مسئلہ ہی یہ ہے کہ تم میرے اشعار کو کو غلط موقعوں پہ استعمال کرتے ہو۔“
( سر جھکا لیتا ہوں، اب یہ نہ پوچھیں کہ اس شعر کو میں نے کس موقعہ پر پڑھا تھا جس کی غالب صاحب کو بھنک پڑ گئی تھی) ۔ کہنے لگے ”خیر ہے یہ تو چھوٹی سی بات ہے تمہیں اندازہ نہیں میرے کلام کو کہاں کہاں خجل کیا جا رہا ہے“ مجھے حوصلہ ملتا ہے اگلا سوال پوچھتا ہوں۔

میں : سنا ہے آپ شراب نوشی کے کافی شوقین ہیں؟
غالب : (قہقہہ لگاتے ہیں )
مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو
یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے

میں : (مسکراتا ہوں )
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ( زیر لب)
غالب : اب تم آہستہ آہستہ ادب کی حدیں پار کرتے جا رہے ہو، اس سے پہلے کہ بات مزید بڑھے میں چلتا ہوں۔
(مجھے پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ کوئی کام کی بات تو پوچھی ہی نہیں )

میں : دست بستہ کھڑا ہو جاتا ہوں اور گزارش کرتا ہوں کہ جاتے جاتے ایک سوال کا جواب تو دیتے جائیے۔
غالب : پوچھو
میں : کہتے ہیں مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور صحافت کسی بھی ریاست کے چار ستون ہوتے ہیں آپ پاکستان کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے بارے میں کیا فرمائیں گے۔
( اپنی طرف سے میں نے کافی پیچیدہ سوال داغ دیا تھا اور توقع کر رہا تھا کہ غالب کو اس کا جواب دینے میں کچھ ٹائم لگ جائے گا اور ممکن ہے اپنے جواب کی وضاحت کے لیے تین چار شعر بھی سناتے جائیں۔ )

غالب: ( ایسے دیکھتے ہوئے جیسے میرے دل میں چھپے چور کو بھانپ گئے ہوں )
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کھلا
اتنا کہہ کر غالب چلتے بنے اور میری آنکھ کھل گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).