پاؤلو کویلہو کی ناول ہپی پر ایک نظر


پاؤلو کویلہو کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کے ان چند لکھاریوں میں سے ایک ہیں جن کی کتابوں سے دنیا بھر کے لاکھوں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ ان کی کتابیں دنیا کی 52 سے زیادہ زبانوں ترجمہ ہوچکی ہیں۔ کویلہلو کی ناول الکیمسٹ نے تو پوری دنیا میں شہرت حاصل کی اور لکھاری کی پہچاں بھی بن گئی، اس ناول کی لاکھوں کاپیاں بک چکی ہیں، جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔
کویلہو کہ ناولوں میں دو پہلو نمایاں ظاہر ہوتے ہیں: ایک روحانیت اور دوسرا فرد کی آزادی۔ یوں تو میں نے کویلہو کے بیشتر ناول پڑھے ہیں، مگر ان کے حالیہ چھپے ناول ہپی نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ یہ ناول سال 2018 میں وائکنگ (پینگوئن) نے چھاپا ہے جوکہ 286 صفحوں پر مشتمل ہے۔
یوں تو اس ناول میں بھی پاؤلو انہی دو باتوں کو بحث میں لائے ہیں مگر اس ناول میں ان کا اسٹوری ٹیلنگ کا آرٹ ان کے دوسرے ناولوں سے بلکل ہی مختلف اور دلچسپ ہے۔
یہ ناول سن 1960ء کے عشرے میں امریکہ میں شروع ہوئی ہپی تحریک جس نے 70 کی دہائی میں پوری دنیا میں مقبولیت حاصل کی کے پس منظر میں لکھا ہوا ہے۔
ہپی تحریک کے دو اہم نقطے تھے:
ایک شخصی آزادی، اور
دوسرا حق کی تلاش۔
اس تحریک میں ہر قوم اور قسم کے فرد نے حصہ لئیا، ہپی کو اس کے مخصوص لباس جوکہ اکثر میلا کچیلا ہوا کرتا اور اس کے لمبے بالوں سے پہچانا جاتا تھا۔ ایک ہپی کے لئے عام لوگوں میں یہ تصور تھا کہ وہ مہینوں تک نہاتے نہیں اور سیکس اور ڈرگس کے حوالے سے آزاد خیال رکھتے تھے۔ جب کہ ایک ہپی اپنے آپ کو ایک ایسا فرد تصور کرتا جو حق کی تلاش میں دنیا کی سیر کو نکلے مختلف سامجوں، ثقافتوں اور مذہبوں کا جائزہ لے اور کثرت میں وحدانیت کو ڈھونڈ نکالے۔

پاؤلو کے ناول ہپی کی کہانی ہالینڈ کے شہر امسٹرڈیم سے شروع ہوتی ہے، جہاں ناول کا میں کریکٹر پاؤلو، جو سب کچھ چھوڑ کر ایک کامیاب لکھاری بننے کے لئے دنیا کی سیر کو نکل پڑا ہے کی ملاقات کارلہ نامی لڑکی سے ہوتی ہی جو بس کے ذریعے نیپال جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ وہاں سے وہ روحانیت کا گیاں حاصل کرنا چاہتی ہے۔ دونوں آزاد خیالات کہ مالک ہیں۔ مگر پھر بھی پاؤلو کو لگتا ہے کہ کارلہ زبردستی اس پر چیزیں مسلط کر رہی ہے اور وہ اس سے جاں چھوڑانا چاہتا ہے۔ پاؤلو کو لگتا ہے کہ حقیقی زندگی تو ہے ہی ہالینڈ میں اور کوئی کیسے اس کو چھوڑکے جا سکتا ہے۔ جبکہ کارلہ کی یہ خواہش ہےکہ پاؤلو اس کے ساتھ نیپال کا سفر کرے۔ بلآخر پاؤلو نیپال جانے پر آمادہ ہوجاتا ہے اور میجک بس (جس کا ڈرائیور مائیکل نامی برطانوی ہے) پر کارلہ کے ساتھ سوار ہوجاتا ہے۔ بس میں انکو ریاں اور مریتھ نامی ایک جوڑا ملتا ہے۔ کچھ ہی دنوں کے سفر کے بعد کارلہ پاؤلو کے انداز سے اکتا جاتی ہے اور ریاں میں دلچسپی لینا شروع کرتی ہے۔ یہ بات مریتھ کو بالکل بھی پسند نہیں آتی اور وہ پاؤلو کے قریب آنے کی کوشش کرتی ہے۔

یوں میجک بس یورپ کے ممالک کا سیر کرتی ہوئی ترکی آن پہچتی ہے جہاں پتا چلتا ہے کہ دنیا کہ سیاسی حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور اگلے 8 دن تک ان کو ترکی میں ہی رہنا ہوگا۔ ترکی میں پاؤلو بازار میں کچھ رقص کرتے صوفیوں کہ دیکھتا ہے جو مولانا رومی کے سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاؤلو ان کا پیچھا کرتا ہے اور پھر اسے وہاں ایک استاد ملتا ہے جو اصل میں فرانسیسی ہے۔ پاؤلو اس شخص سے صوفی مت کی تعلیم لینے کا ارادہ کرلیتا ہے۔ پاؤلو یہ بھی فیصلہ کرلیتا ہے کہ اب وہ میجک بس پر مزید سفر نہیں کرے گا اور اپنی باقی کی زندگی اس سلسلے کے ساتھ رقص کرتے گذار دیگا۔ ابھی ان ترکی میں تیں دن ہی ہوتے ہیں کہ ان کو اطلاع ملتا ہے کہ وہ اگلے دن ترکی سے نکل جائیں وگرنہ ان کو مزید 15 دن رکنا پڑے گا۔ اس رات کارلہ پاؤلو سے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کرتی ہے اور اس کو بتاتی ہی کہ اب اس کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ مگر پاؤلو مزید سفر کرنے سے انکار کردیتا یے اور کارلہ اسی وہیں چھوڑ کر نیپال چلی جاتی ہے۔ لیکں ترکی مین پاؤلو ایک سال سے زیادہ عرصہ نہیں گذار سکتا اور برازیل لوٹ جاتا ہے اور پھر ایک مشہور لکھاری بن جاتا ہے۔


اس ناول کے حوالے سے کویلہو لکھتے ہیں کہ:
“اس ناول میں دو کرداروں کے علاوہ جں کے مجھے صرف پہلے نام ہی یاد تھے۔ باقی تمام کردار حقیقی ناموں سے رکھے گئے ہیں اور ناول میں موجود ہر واقعے میں کیسی نہ کیسی انداز میں میں اس کا حصہ رہا ہوں”۔
میری نظر میں یہ ایک ایسا ناول ہے جس میں ایک ہی وقت بہت سی ثقافتوں، ممالک، مذاہب، 70 کی دہائی میں دنیا بھر میں سیاسی خلفشار اور مختلف لوگوں کے رویوں کے بارے میں جانکاری ملتی۔ اس ناول میں قاری کو بہت سارے cultural shocks بھی پڑھنے کو ملیں گے۔ مثال کہ طور پر جیکس نامی ایک کردار ترکی کی ایک بازار سے گذرتا ہے تو دیکھتا ہر مرد کے منہ پر مونچھ ہے اور اسکو تجسس ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے کا راز معلوم کرے۔ اس سلسلے میں وہ ایک کافی شاپ میں جاتا ہے اور اس سے کے مالک سے پوچھتا ہے:
“کیا یہاں مونچھ رکھنا مذہبی طور پر لازم ہے؟”
“بلکل بھی نہیں، یہ تو ہمیں مرد ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ یہ ہماری شان اور شوکت کی نشانی ہے۔ یہ مجھے میرے ابا نے بتایا تھا، جں کی اپنی بڑی خوبصورت مونچھیں تھیں۔ اور مجھے دیکھ کر بولے تھے کہ ایک دں میری مونچھیں بھی ان کے جیسی ہوں گی۔ ابا نے مجھے بتایا تھا کہ جب اس باپ دادا کے زمانے میں انگریز اور فرانسیسی فوجیں ترکی پر قبضہ کرنا چہتے تہیں تو ترکی کی فوج کی ہر پلٹن میں جاسوس بھرے ہوئے تھے۔ تو سچے سپاہی کی شناخت کے لیئے ایک مخصوص انداز میں مونچھیں رکھنے کا رواج پڑا۔ جس سے پتا چلتا کہ کون کس طرف ہے۔ یہ رواج ہماری شاندار عثمانیہ سلطنت سے چلا آرہا ہے۔ جو لوگ نئے حکمرانوں کے حق میں تھے وہ اپنی مونچھیں انگریزی حرف ایم کی طرح رکھتے اور جو اس خلاف ہوتے وہ یو اسٹائیل میں مونچھیں رکھتے۔”
“اور جو نا کسی کہ حق میں نا ہی کسی کے مخالف؟”
“ان کے منہ پر کوئی مونچھ نہ ہوتی، پر یہ بات ان کے خانداں کے لیئے باعث شرم ہوتی، ان کو عورتیں سمجھا جاتا تھا۔”
“اور یہ سلسلہ آج تک چلتا آ رہا ہے؟”
“نہیں ترک قوم کے ابا اتا ترک، وہ فوجی لیڈر جنہوں نے یورپی لٹیروں کو مار نکالا کبھی مونچھیں رکھتے تھے اور کبھی نہیں رکھتے تھے۔ اس عمل پر سب حیرت زدہ رہے۔ مگر ایک بار کوئی چیز سماج کا حصہ بن جائے تو آسانی سے جاتی نہیں۔”
یہ ایک ایسا ناول ہے جسے پورا کئے بغیر قاری رہ نہیں پائے گا۔

(کلیم بٹ سندھی زباں کے ناول نگار ہیں اور ان کے چار ناول چھپ چکے ہیں)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).