یوٹرن، دیسی مرغیاں، تفریحِ طبع یا کچھ اور؟



ابھی یوٹرن کے بیان پر لفظی گولا باری تھمی ہی نہیں تھی کہ جناب عمران خان کی طرف سے دیسی مرغیوں اور انڈوں کی افزائش کے حوالے سے دیئے بیان نے ملک کے سیاسی اور صحافتی افق پر میدان کو گرما دیا ہے۔ کرتارپور کے چھکے کا اثر تو ملتانی مخدوم کے گگلی نما بیان نے زائل کردیا مگر انڈوں اور مرغیوں والے بیان کی تپش تو ایسی ہے کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی، اس بحث میں تو ہر ایک قلمی جہادی اپنا حصہ ملانا عین عبادت سمجھ رہا ہے۔
کوئی کالم لکھ رہا ہے، کوئی بلاگ کوئی، بیان داغ رہا ہے تو کوئی کہانیاں اور لطیفے بنا رہا ہے۔ یا اللہ اس ملک میں جمہوریت پر شب خون مارے گئے، ایبٹ آباد ہوا، سلالہ ہوا، ملک دو لخت ہوگیا، کبھی اتنا شور نہیں سنا گیا جتنا کچھ دن سے وزیراعظم کے مرغی اور انڈوں کے بیان پر اٹھا ہے۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جو لوگ اربوں روپوں کی کرپشن پر اتنا ردعمل نہیں دیتے، ایسا کیا ہوا ہے کہ انتا سیخ پا ہوگئے ہیں، حالانکہ جنہوں نے ملک میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا، ملک کو قرضوں میں جکڑ دیا، مہنگائی کے تحفے دیئے، ملکی خودمختاری پر سودے بازی کی انہوں نے اس ملک اور عوام کے ساتھ دشمنی کی، اتنا شور تو ان کے خلاف ہونا چاہئے تھا، مگر مجال ہے کہ کوئی ان کے بارے میں اف تک بولے۔ بلکہ ستم بالائے ستم کہ اس وقت بھی قلمی مجاہدین ان میں سے کسی کو نجات دہندہ قرار دیتے ہیں تو کسی کو عوام کا حقیقی رہنما بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
مجھے کوئی بتائے گا کہ عمران خان نے ایسا کیا کہا ہے کہ ان کو اپنے حقوق پر ضرب محسوس ہوئی، انسانی حقوق پامال ہوئے، ملکی سلامتی داؤ پر لگ گئی یا جمھوریت خطرے میں پڑ گئی۔
سچ تو یہ ہے کہ اس بیان کے وقت عمران خان نہ تو موٹر وے، میٹرو ٹرین، لیپ ٹاپ یا سستی روٹی جیسی اسکیم کا اعلان کر رہے تھے جس میں کمیشن کا امکان ہو، نہ ہی وہ کسی ایسی ترقیاتی اسکیم کا اعلان کر رہے تھے جس کے ٹھیکوں میں قبل از وقت اقربا پروری کا الزام دھرا جا سکتا، اب ایک بات کو متنازع بنانا ہے تو چلئے یوں ہی سہی۔
انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ اگر تنقید کرنے والوں کو وزیراعظم کی اس تجویز پر کوئی اعتراض ہے تو براہ مہربانی بل گیٹس کی افریقہ میں دی گئی امدادی اسکیم کا اس شدت سے نہیں تو کم از کم اس کے دسویں حصے کے برابر ہی تمسخر اڑا کر دکھائیں۔ مگر نہیں۔ جتنے لطیفے اور کالمز پچھلے دو تین دنوں میں عمران خان کے خلاف مارکیٹ میں آگئے ہیں اس کے دسویں حصے کے برابر ہی بل گیٹس کے خلاف بھی آجانے چاہیئں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر زیادتی ہے۔
میں عمران خان کی پالیسیوں اور اس کے سیاسی رفیقوں کے طرز عمل کا سخت ناقد رہا ہوں مگر مجھے اس شخص کی نیت پر کبھی کوئی شک نہیں رہا، میں ایمانداری سے یہ بھی سمجھتا ہوں کہ کم ازکم عمران خان اپنی ذات کی حد تک کرپٹ نہیں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس بیان کے معاملے میں اس شخص کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر کسی کو ان کی بات سے اتفاق نہیں تو اس کو چاہئے کہ متبادل طریقہ کار وضع کرنے میں رہنمائی کرے، جس سے غربت مٹانے میں مدد ملے، اگر ایسا نہیں تو تنقید کا یہ انداز بھی مناسب نہیں ہے۔
میری ناقص رائے میں عوام کو حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کا پورا حق ہے مگر تنقید میں اصلاح کا پہلو ہونا چاہئے، نہ کہ طنز یا تمسخر کا۔ اگر ہم اشوز پر بات کریں گے اس سے مثبت نتائج کی امید کی جاسکتی ہے۔ ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ عمران خان نے عوامی تنقید پر کئی فیصلے تبدیل کئے، اگر اداکارہ شبنم کیس کا ذکر نکلا تو ایک شخص کو پارٹی کا دیا ہوا ٹکٹ واپس کیا گیا، پرویز خٹک پر تنقید ہوئی تو اس کا نام وزارتِ اعلیٰ سے ڈراپ ہوگیا، اگر معاشی پالیسیوں پر تنقید ہو رہی ہے تو خان کے چہیتے اسد عمر کو وزارت کے لالے پڑ گئے ہیں، ایسی اور بھی کئی مثالیں ہیں مگر کیا کیجئے کہ لوگوں کو عمران خان کے یوٹرنز سے بھی اختلاف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).