انگریزی بولنے والے بھکاری


کوئی ایک آدھ سال پرانی بات ہے کہ ایک جگہ ایک لڑکے کو میں نے سڑک پر یہ رٹا ہوا منتر پڑھتے دیکھا۔
“Dear sir, please help me, I am not a professional begger, I need some money”
یہ لڑکا کوئی 16 یا 17 سال کا ہو گا، اس نے پتلون قمیص پہن رکھی تھی اور چہرے پر ایک بڑا سنجیدہ اور غمگین تاثر اوڑھے ہوئے تھا۔ غالب گمان یہ ہے کہ یہ لڑکا وہی تھا جو یہ نہ ہونے کا دعویٰ مستقل کر رہا تھا، یعنی ایک پیشہ ور بھکاری۔ اب یہ لفظ ”بھکاری” بڑا برا معلوم ہوتا ہے، کہنے والا کہہ کر احساس جرم کا شکار ہو جاتا ہے کہ اس نے کسی کو بھکاری کہہ کر کہیں تکبر تو نہیں کر دیا۔ واقعی تکبر کا حق تو کسی کو نہیں، اس لئے بھکاری کی جگہ ”مانگنے والا” ایک نسبتاً مہذب لفظ لگتا ہے۔ تو چلیے یوں کہہ لیجئے کہ وہ لڑکا ایک پیشہ ور مانگنے والا تھا۔ ویسے بھکاری کوئی معمولی لوگ نہیں ہوتے، اس وطن میں ایک پیشہ ور مزدور اگر کوئی خاص ہنر بھی جانتا ہو تو بھی ایک دن میں اوسطاً بہ مشکل ایک ہزار روپے ہی کما پاتا ہے اور ایسا ہنر مند مزدور تو بہت خوش قسمت تصور کیا جاتا ہے، مگر ایک ہنر مند بھکاری (جو بھکاری پن کے سارے حربوں سے واقف ہو) با آسانی دو ڈھائی ہزار روپے یومیہ بھی بنا لیتا ہے۔ بعض بھکاری تو اپنی ”ڈیوٹی” پوری کرنے کے بعد چرغا کھاتے ہیں۔ پھر بھکاری بھی بڑے منظم ہوتے ہیں، ان میں علاقوں کا سسٹم چلتا ہے اور ہر الگ ہنر کے بھکاری کا ایک علیحدہ مقام اور انگریزی اصطلاح میں ”اپیل” ہوتی ہے۔ لنگڑے، لولے، اندھے، فقیر کو دیکھ کر لوگوں کو اللہ کہ یہ نعمت یاد آ جاتی ہے کہ وہ ما شاء اللہ صحت مند ہیں اور ان معذوریوں سے محفوظ ہیں (اب تک) ڈرے ہوئے ہاتھ جیبوں تک جاتے ہیں اور بھکاری کی جھولی بھر جاتی ہے، پھر بچے فقیر، ملنگ فقیر، بیوہ فقیرنیاں، بسوں میں چڑھنے والے فقیر، سڑکوں پر لیٹے، بیٹھے فقیر، مساجد میں آخری رکعت ختم ہوتے ہی دعا سے قبل کھڑے ہو کر جلدی سے اپنا مسئلہ بیان کر کے تیز آواز میں رونے والے فقیر۔ ۔۔الغرض ہر ہر نوع اور ماڈل کے بھکاری معاشرے میں موجود ہیں۔
دراصل یہ بھکاریوں کی اقسام لوگوں کے خوف کی مختلف شکلوں کی تجسیم ہیں، پھر بھکاری نہ ہوں تو لوگوں کو اپنا آپ برتر کیسے معلوم ہو؟ 600 روپے کمانے والا محنت کش بھی جب بھکاری کی جھولی میں ایک روپیہ اچھالتا ہے تو دل میں خوش ہوتا ہے کہ میں اس بھکاری سے برتر ہوں، محنت کر کے کھاتا ہوں اور اپنی اتنی کم آمدن سے بھی اس معاشرے کو آکاس بیل، اس پیرا سائٹ کو پال رہا ہوں۔
فی زمانہ ہمارے وطن میں NGO’s بھی یہی کردار ادا کر رہی ہیں، یعنی بھکاری ہیں اور بڑے اعلیٰ درجے کے بھکاری۔ اور یہ بھی بھیک انگریزی میں مانگتے ہیں مگر ضروری نہیں کہ کشکول بھی آپ کے ہی سامنے رکھا ہو۔ہمارے ملک کی NGO’s کے قیام کے پیچھے ایک محرک مغربی ملکوں کے رئیسوں کی یہی نفسیاتی ضرورت ہے، یعنی برتر محسوس کرنا۔ آخر رئیسوں کی شان دنیا پر کیونکر عیاں ہو گی اگر وہ بھکاریوں کے کشکولوں میں ڈالر، یورو اور پونڈ نہ اچھالیں؟ مگر بعض لوگ بھیک کے ساتھ بھکاری کو ایجنڈا بھی دیتے ہیں کہ ”بھکاری میاں یہ لو سو ڈالر، شاباش! لیکن تم کو اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کرانا ہو گا، سوچ لو، اگر تم نے ایسا کیا تو میں تم کو ہر مہینے 100 ڈالر دیا کروں گا۔” رئیس کی اس دین سے تو سمجھیے بھکاری کی چاندی ہو جاتی ہے۔ وہ اگلے مہینے اپنے 17 بچے بھی اسکول یونیفارم پہنا کر بستوں کے ساتھ اپنے ”ان داتا” کے پاس لے جاتا ہے کہ ”مائی باپ ان سو ڈالروں میں تو صرف یونیفارم ہی آ سکا ہے” اسکول سے فیس کے وعدے پر بات ہو گئی ہے، بس آپ مجھے 600 ڈالر اور عطا فرمائیں تو میں اپنے بچوں کو اسکول میں ڈلوا دوں اور آپ ثواب دارین حاصل کریں۔”

یہ منظر عام طور پر رئیسوں کی انا کو بڑی تسکین دیتا ہے۔ پھر بعض رئیس کافی ”پنچایتی” ہوتے ہیں،ا گر فیس کی مد میں پیسے دیں تو فیس کی رسید مانگ لیتے ہیں، اگر علاج کی مد میں پیسے دیں تو اسپتال کا بل۔ اب بھکاری کے پاس دو راستے ہوتے ہیں، اول یہ کہ یا تو جعلی رسیدوں کا انتظام کریں، دوئم حقیقی طور پر بچوں کو اسکول میں (یا اپنے مریضوں کو اسپتال میں) داخل کرائیں۔ان دونوں راستوں سے بھی زیادی ایک تخلیقی طریقہ بھیک جمع کرنے کا موجود ہے جو فی زمانہ NGO’s میں سکہ رائج الوقت کا درجہ رکھتا ہے اور وہ یہ کہ بھکاری اپنا اسپتال، اسکول یا جو بھی ممکنہ بھیک ملنے کی شرط ہو، وہ ادارہ کھول لیں۔ مگر ظاہر سی بات ہے بھکاری کو بھیک سے مطلب ہوتا ہے اور یہ ادارے اس نے صر ف بھیک کی توقع میں کھولے ہوتے ہیں، اس لئے یہاں پر بجٹ میں خورد برد ہی حقیقی کام ہوتا ہے۔ پھر مغربی رئیسوں کے الگ الگ ایجنڈے ہیں جیسے عورتوں کے حقوق، بچوں کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق، ہم جنس پرستوں کے حقوق، بلکہ ”سائبر” حقوق تک۔ مغربی ملکوں کے رئیس سوچتے ہیں کہ بھکاری ان کی مرضی کے ”انسان” بن جائیں، یہ ٹکڑے اچھالتے ہیں اور ہمارے غریب ملکوں کے یہ ادرے جو NGO’s کہلاتے ہیں کسی سگ خانہ زاد کی سی مشاقی سے اچھل اچھل کر یہ ٹکڑے پکڑتے ہیں۔ ”جو دے اس کا بھی بھلا، جو نہ دے اس کی بھی خیر!” ہوشیار باش! بھکاریوں سے ساری دنیا میں جاسوسی بھی کرائی جاتی ہے۔ اس طرح یہ بھیک کے علاوہ بھی چند روپے کما لیتے ہیں۔
ویسے تو بھکاریوں پر شرائط لاگو کر کے پیسے دینے والے یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ بھکاری ان کی بتائی ہوئی اقدار کو اپنا لیں گے مگر ایسے افراد / ممالک / ادارے یہ بھول جاتے ہیں کہ بھکاری ہر ہر سماج کا سب سے پست تلچھٹ ہوتے ہیں اور ان کی قدر صرف اور صرف بھیک ہوتی ہے۔ وہ بھیک مانگنے کے لئے انگریزی میں تقریر رٹ سکتے ہیں ، ہاتھ میں ناڑے، گجرے لے کر کھڑے ہو سکتے ہیں، ملنگ کا چولا پہن سکتے ہیں، دعائیں ”بیچ” سکتے ہیں مگر بدل نہیں سکتے۔ سماج کا تلچھٹ کبھی سماج میں تبدیلی نہیں لا سکتا اور ان گداگروں کی سوداگری صرف آپ کی جیب سے بھیک نکلوانا ہی ہے۔ رئیس کا حکم ہو گا کہ ”بول کہ لب آزاد ہیں تیرے” تو یہ بھکاری ”بولو بھی، بولو بھی” کے نعرے لگاتے بھیک مانگیں گے۔ تھوڑی بھیک اور ملے تو بھکاری کو اپنا جسم اپنا دین، اپنا ایمان بھی فروخت کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔ اس لئے کہ ”پیر تسمہ پا” اپنے پیروں پر چل نہیں سکتا۔ اس لئے کہ آکاس بیل کبھی زمین میں جڑیں پھیلا سکتی نہیں۔ اس لئے کہ نیچے والا ہاتھ یعنی کشکول والا ہاتھ، ہمیشہ نیچے والا ہاتھ ہی رہتا ہے اور یہ حق ہے کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ بے شک!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).