میرا بیٹا ہاتھ سے نکل رہا تھا!


”کچھ عرصے سے میں نے نوٹ کِیا کہ وہ کاروبار سے پیسے نکالنے لگا تھا۔ دکان کی حالت دن بہ دن خراب ہو رہی تھی۔ اُس سے پوچھتا تو وہ کسی نہ کسی طریقے سے مجھے تسلی کرا دیتا۔ لیکن میں جان گیا تھا کہ اب وہ ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ اکثرو بیشتر میں اچانک دکان پہ جاتا تو وہ دکان بند کر کے کہیں آوارہ گردی پہ نکلا ہوتا۔ اس کے دوست بھی عجیب مشکوک سے تھے۔ سگریٹ کا استعمال بھی بڑھ رہا تھا۔ گھر پہ ہوتا تو زیادہ تر سویا ہوا پایا جاتا یا موبائل فون پہ لگا ہوتا۔ کچھ ذرائع سے معلوم ہوا کہ کوئی لڑکی کا چکر بھی ہے۔

میں اس کے لئے بہت پریشان رہنے لگا۔ بیوی نے مشورہ دِیا کہ اس کو کھونٹے سے باندھ دیں، جب ذمہ داری پڑے گی تو خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ یار دوستوں نے بھی یہی کہا کہ شادی کر دو سُدھر جائے گا۔ سو میں نے بیٹے کی شادی کر دی۔

گھر میں بہو آ گئی اور اُمید کے مطابق بیٹے کی آوارہ گردیاں کم ہو گئیں۔ ہم خوش تھے۔ لیکن یہ خوشی محض چند دن کی نکلی اور اس کے بعد اس کی پھر وہی روٹین ہوگئی کہ دکان سے پیسے نکال لیتا، گھنٹہ گھنٹہ بھر دکان بند رہتی۔ شاید کوئی اور کام کرنے لگ گیا تھا یا عیاشی میں اُڑا دیتا تھا۔ بیوی نے کہا کہ ظاہر ہے اب تو دکان سے نکال کر بہو کو ہی دیتا ہو گا سو میں نے اسے کاروبار سے نکال دیا۔

اب وہ کہتا تھا اپنا کاروبار کروں گا۔ سرمایہ اس کے پاس کہاں سے آتا۔ میں نے اسے کچھ بھی نہ دیا۔ گھر میں سویا پڑا رہتا کبھی لگتا تھا ہاتھ پاؤں مار رہا ہے اور نوکری ڈھونڈنے کی کوشش کررہا ہے مگر نہ کماتا تھا نہ ہاتھ آتا تھا۔ پھر بہو نے اپنا زیور دِیا کہ کاروبار کرے۔ وہ بھی اس نے ادھر اُدھر اُڑا دیا۔ اب تو وہ ایک بچے کا باپ بھی تھا۔ میں اس کی بیوی اور بچے کہ خرچے کہاں سے اُٹھاتا۔ ایک دکان ہی تھی میرے پاس۔ اور ابھی میرے دو چھوٹے بچے بھی تھے۔ میں نے اُسے دو ٹوک کہا کہ جیسے مرضی اپنے اخراجات پورے کرے، میں اس کی بیوی بچے کی ذمہ داری نہیں اٹھاؤں گا۔

اس نے خرچے کہاں پورے کرنے تھے بلکہ کچھ دن بعد وہ بہو اور بچے کو میکے چھوڑ آیا۔ اب حال یہ ہے کہ خود کبھی گھر پڑا رہتا ہے اور کبھی دوستوں کے ساتھ شہر کی خاک چھانتا پھرتا ہے۔ مجھے اپنے باقی بچوں کو بھی پالنا ہے اس لیے میں نے بہو کو واپس لانے کی کوئی بات نہیں کی۔ آخر کو وہ اُسکی ذمہ داری ہے اور اس کو ہی پوری کرنی ہے جب بھی کرے۔ پال پوس کے جوان کر دیا، شادی کر دی، اب میں مزید اُسکا کوئی بوجھ نہیں اُٹھا سکتا۔

یہ ہے آج کہ دور کی ایک عام سی کہانی!

روز ہم اپنے ارد گرد ایسی کئی آوازیں سُنتے ہیں۔
بیٹا آوارہ ہو رہا ہے؟ شادی کر دو۔
بیٹا ناکارہ ہے؟ شادی کر دو۔
بیٹا کسی بد چلن لڑکی کے چکر میں ہے؟ شادی کر دو۔
بیٹا غلط صحبت میں بیٹھنے لگا ہے؟ شادی کر دو۔
غرض آپ کا بیٹا کچھ بھی غلط کر رہا ہے تو شادی کر دو!

جیسے شادی ہوتے ہی بہو جادو کی چھڑی گُھمائے گی اور آپ کے بیٹے حضور جھٹ سے آپ کی مرضی کے عین مطابق ایک فرمانبردار سپوت میں تبدیل ہو جائیں گے !

اور اگر نہ ہوئے تو؟
ایک لڑکی کی ساری زندگی آپ کے تجربے کی بھینٹ چڑھ جائے گی!

کبھی سوچا ہے کہ اس سب میں نقصان کس کا ہُوا؟
اس باپ کا؟ جس کے اور بھی بیٹے ہیں اور اس کی اُمیدیں پوری کر سکتے ہیں۔
اس لڑکے کا؟ جسے اس سب سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔

یا
اُس لڑکی کا جو شادی کر کے اُس گھر میں لائی گئی اور پھر ایک بچے سمیت ماں باپ کے گھر لوٹا دی گئی۔
ان ماں باپ کا جنہوں نے اپنی جان سے پیاری بیٹی بیاہنے کی ذمہ داری اس اُمید پہ ادا کی کہ وہ ہمیشہ خوش رہے۔
اس بچے کا جسے اس دنیا میں لانے کے بعد باپ اپنی عیاشیوں کے آگے چھوڑ گیا۔
اس معصوم لڑکی کا کیا قصور تھا جس کو ایک تجربے کی بھینٹ چڑھا دِیا گیا؟

لڑکوں کے والدین کب یہ بات سمجھیں گے کہ اگر ان کا بیٹا بگڑ رہا ہے تو یہ اُن کی اپنی تربیت کا قصور ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ اس کا درست علاج کوئی بڑی ذمہ داری ڈالنا ہی ہے تو اُس پہ گھر کی اور ذمہ داریاں ڈالی جائیں۔ اس کو گھر کا خرچ چلانے کی ذمہ داری ڈالیں۔ اُسکی اخلاقیات اور شخصی پسماندگی کو صحیح کرنے کے لئے اس کے لئے دین کی تعلیمات اور اچھی صحبت کا انتظام کیا جائے۔

شادی اس کا حل نہیں ہے کہ آپ کسی کی بیٹی کی زندگی کوصرف اپنے گمان میں خراب کر دیں۔ اپنی کوتاہیوں کا خمیازہ کسی کی بے قصور بیٹی سے نہ اُٹھوائیں۔ کسی کی زندگی کو اپنی غلطیاں سدھارنے کے لئے داؤ پہ نہ لگائیں۔ اور اگر پھر بھی آپ کو لگتا ہے کہ شادی ہی اس سب کا حل ہے تو اپنے بیٹے کے سدھرنے کی اُمید پہ جس لڑکی کو بڑے چاؤ سے بیاہ کے لاتے ہیں اس کی ذمہ داری خود اُٹھائیں۔

اسے یوں بے یارو مددگار نہ چھوڑیں۔ آپ لڑکی کے والدین کے سوالوں سے تو بچ سکتے ہیں لیکن اللّٰہ کہ ہاں آپ جواب دہ ہیں۔ اپنی اولاد کی ناقص تربیت کے لئے بھی اور ایک بچی کی زندگی سے کھیلنے کہ لئے بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).