بے وفا شوہر سے انتقام


جس اعتماد کو میں محبت کے حسین جذبے کی بنیاد پر تعبیر کرتی رہی، احمر نے تو کبھی وہ مجھ پر کیا ہی نہ تھا۔ اب مجھ پر آشکار ہوا کہ محبت کی مالا احمر میرے لیے نہیں بلکہ میرے سامنے جپتا تھا۔ وہ میری دیوانی محبت کے بدلے محبت کا صرف سوانگ رَچا رہا تھا۔

اس نے میرے سچے جذبوں کے بدلے مادی خوش حالی اور آزادی دی، صرف اس لیے کہ میں اس کے ناٹک کو حقیقت سمجھتی رہوں۔ اس سے کسی بات کا جواب طلب نہ کروں، اور ایسا ہی ہوا۔

وہ جس دنیا کا مسافر تھا وہاں وفا، خلوص، محبت، اعتماد جیسے لفظوں کا گزر ہی کب ہوتا ہے؟ تبدیلی کے فطری تقاضے اسے کچھ دیر کے لیے میری چھاؤں میں لے آئے اور وہ مسافروں کی طرح ذرا سا سستا کے واپس اپنی دنیا کی طرف نکل گیا۔ میرے اندر ماتم برپا تھا۔ احمر کو میں نے دیوتا کی طرح پوجا تھا۔ اب اس کی بے وفائی کا آزار سہا نہ جارہا تھا۔

پانچ سال قبل اپنی زندگی میں اس نے مجھے شریک حیات نہیں بلکہ محض ایک عورت کی حیثیت سے جگہ دی تھی۔ میرے نئے جذبوں کو پرانے پیرہن سے ڈھانپ کر وہ میری بے لوث محبت کی توہین کرتا رہا اور مجھے خبر ہی نہ ہوئی۔ میں جیسے جیسے سوچ رہی تھی میرا دماغ ماؤف ہوتا جا رہا تھا۔

میں اندر ہی اندر بکھر تی رہی۔ چین سکون سب کھو چکی تھی لیکن میں نے احمر پر کچھ ظاہر نہ ہونے دیا۔
پہلے جو دن پر لگا کر اڑتے تھے اب ان کی رفتار چیونٹی سے بھی زیادہ دھیمی ہوچکی تھی۔

اندھے یقین کی پٹی آنکھوں سے سرکی تو بہت ساری چیزوں کا انکشاف ہوا، احمر اپنا موبائل، لیپ ٹاپ، بیگ، والٹ سب کچھ غیرمحسوس طریقے سے میری دسترس سے دور رکھتا۔ ہر چیز میں لاک اور پاس ورڈز۔

راتوں کی چین بھری نیند رخصت ہوئی تو معلوم ہوا کہ مجھے سوتا پاکر احمر کا موبائل سمیت کمرے سے نکل جانا تو معمول تھا۔ ہاں! جانے سے قبل میرے ماتھے پہ بوسہ ضرور دیتا تھا۔ دل پہلے والا ہوتا تو میں احمر کی اس ادا پر نثار ہوجاتی لیکن جانتی تھی کہ یہ بوسہ میری محبت میں نہیں بلکہ وہ میری گہری نیند کا یقین کرنا چاہتا ہے۔

”احمر اتنی رات کو کس سے بات کر رہے ہو؟ “ آخر ایک را ت میرا صبر جواب دے گیا اور میں بالکنی میں کھڑے احمر کے پیچھے جا کھڑی ہوئی۔

احمر کی ہنسی کو ایک دم بریک لگا، آنکھوں کی چمک ماند پڑی اور اس نے فوراً فون بند کردیا۔ اپنی حیرت پر قابو پاتا ہوا میری طرف مڑا اور مسکراتے ہوئے والہانہ مجھے گلے لگالیا۔ ”میری جان کیا ہوا نیند نہیں آرہی آج؟ “ پرفیوم میں ڈوبے نائٹ سوٹ کی خوشبو اور احمر کی بانہوں میں میرا دم گھٹنے لگا۔ میں فوراً الگ ہوگئی۔

”تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ “ میں احمر کی آنکھوں میں جھانک رہی تھی۔
”کچھ نہیں میری جان، یو کے سے ایک دوست کا فون تھا۔ “
”تو کرتے رہتے بات۔ میرے آتے ہی لائن کیوں کا ٹ دی؟ “ اس کے سفید جھوٹ پر میں اپنے لہجے کی کاٹ نہ چھپا سکی۔

”کم آن یار! کیا ہوگیاَ؟ میں نے کب لائن کاٹی۔ خود ہی کٹی ہے۔ راستہ دو مجھے سونا ہے اب۔ “ احمر کا لہجہ سلگ رہا تھا۔ آج پہلی بار اس کا لہجہ تیز ہوا تھا۔ میرا پہلا سوال ہی اس کی محبت اور وارفتگی کی قلعی کھول گیا۔ گویا احمر کی محبت میری خاموشی سے مشروط تھی۔ ہمارے درمیان رشتہ نہیں تھا، بس ایک سودا تھا۔ میرے قدم لڑکھڑا رہے تھے اور بالکنی میں آنے والے ہوا کے سرد جھونکوں نے میرے صبر کا پیمانہ مزید لبریز کردیا۔

بستر پہ گری جانے کب تک روتی رہی نہیں جانتی۔ جان کر فرق بھی کیا پڑتا۔ معلوم تھا تو بس یہ کہ وقت میرے لیے بدل چکا ہے۔

وقت بدلا تو آہستہ آہستہ سب کچھ بدلنے لگا۔ میرے اور احمر کے درمیان صرف لحاظ کا رشتہ بچا تھا۔ وہ بھی اس وقت تک جب تک میں نبھا رہی تھی۔ اسی لحاظ کی وجہ سے میں اس موضوع کو پھر کبھی زیربحث نہ لائی۔ رہ گیا احمر تو وہ تو بندھا ہی میری محبت سے تھا۔ میں تھک کر بے دم ہوئی تو وہ بھی رسموں سے آزاد ہوا۔ میری بے چینی اور پریشانی کو محسوس کر کے بھی کچھ نہ پوچھتا۔ خاموش دیکھ کر کبھی مخاطب نہ کرتا۔ میں نے خود کو کونے سے لگایا تو وہ بھی بے نیاز ہوتا گیا۔ اسے نہ میری دیوانی محبت کا پاس رہا اور نہ خلوص اور وفا کا۔ منظر میں ہوکر بھی میں پسِ منظر میں چلی گئی، لیکن اس کے معمولات میں میری وجہ سے کوئی فرق نہ آیا۔ احمر احمر ہی رہا بس ثمین، ثمین نہ رہی۔

اور ایک رات میں نے خود ہی احمر سے بات کرنے کی ٹھانی، لیکن وہ رات ہمارے تعلق کی آخری رات ثابت ہوئی۔ وہ احمر جو میری ہر بات مسکرا کر سنتا تھا آج اپنے اوپر آئی کوئی بات سننے کو تیار نہ تھا۔ میرے رونے پر وہ تکیہ اور موبائل اٹھائے کمرے سے جانے لگا۔ میں نے پکارا تو وہ پلٹا اور دھاڑا، ”رہنے دو، اب کسی بات کا کوئی فائدہ نہیں۔ مجھے کم از کم تم سے یہ امید نہیں تھی، آخر تم بھی وہی نکلیں ثمین۔ “

احمر نے لمحے بھر میں مجھے ان سار ی عورتوں کی صف میں لا پھینکا۔ ذرا دیر میں جتا دیا کہ مرد کے نزدیک وفا کی اہمیت کوڑی سے زیادہ نہیں۔

وہ رات بیتے آج تین سال ہوگئے۔ میں نے پھر احمر سے کوئی بات ہی نہ کی۔ اس کے دیے ہوئے زخموں کو میں نے خود ہی بھرا۔ جب جب ٹوٹ کر بکھری میں نے خود کو خود ہی سنبھالا اور سمجھایا کہ زندگی پر جتنا حق احمر کا ہے اتنا میرا بھی تو ہے، یوں احمر میری زندگی میں آنے والا پہلا مرد تو بنا لیکن آخری ثابت نہ ہوسکا۔ احمر نے تو اپنی زندگی میں آنے والی ایک ایک عورت کا کھاتا کھولا ہوا تھا لیکن میں اپنی زندگی میں شامل ہونے والے مَردوں کا کوئی حساب نہیں رکھتی۔ اس سے بہتر انتقام میں احمر سے اور کیا لے سکتی ہوں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2