گورنر ہاؤس کی دیوار گرانے کا مشورہ کس نے دیا تھا؟


ڈاکٹر کاشف جاوید شیخ خوشی سے سرشار گویا ہوئے۔ “دیکھا کتنا بڑا کام ہونے جا رہا ہے۔ عوام اور حکومت کے درمیان فاصلے مٹ رہے ہیں۔ گورنر ہاؤس کی دیوار گرائی جا رہی ہے۔” محترم اطلاعاً عرض ہے کہ سپریم کورٹ نے فی الحال دیوار گرانے سے روک دیا ہے۔ ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔” میں نے جواب دینا ضروری سمجھا۔

” ایں ! ایسا کیوں کیا؟ ” ڈاکٹر صاحب چونک اٹھے۔

پہلے یہ بتائیے کہ آپ کو دیوار گرانے سے کیا فائدہ ہو گا؟

“بھئی میں روز گھر سے ہسپتال مال روڈ سے گزر کر جاتا ہوں۔ روزانہ گورنر ہاؤس کا دلکش نظارہ کر سکتا ہوں۔ آخر یہ 130 سال پرانی تاریخی عمارت ہے۔ ” ڈاکٹر نے فوراً کہا۔

“اس کے علاوہ کوئی اور فائدہ ہو تو بتائیں۔” میں نے پوچھا۔

” یہ اچھا قدم ہے، اس کے اور بھی فائدے ہوں گے اسی لئے تو ہمارے وزیر اعظم نے یہ فیصلہ کیا۔”

چلئے میں بتاتا ہوں۔ میں نے ڈاکٹر شیخ کی مشکل آسان کرتے ہوئے کہا۔ دیوار گرانے سے بیسیوں مزدوروں کو روزگار ملے گا۔ پھر سنا ہے کہ دیوار کی جگہ کروڑوں روپے خرچ کر کے جنگلہ لگایا جائے گا۔ کسی سٹیل مل کا بھلا ہو گا، اس کا کاروبار ترقی کرے گا۔ بلکہ ہو سکتا ہے یہ لوہا اتفاق فاؤنڈری سے خریدا جائے۔ اس طرح نواز شریف کو بھی فائدہ ہو سکتا ہے۔

” آپ کیجئے مذاق لیکن یاد رکھیں یہ اعزاز اس حکومت ہی کو حاصل ہے جو عوام کے فائدے کے لئے ہر روز کچھ نیا سوچتے ہیں۔ گذشتہ حکومتوں نے کیا کیا تھا۔ کچھ بھی نہیں۔ اب آپ کو کام نظر تو آ رہا ہے ناں۔ ناجائز تجاوزات ہٹائی جا رہی ہیں۔ بلڈوزر چل رہے ہیں۔ دیواریں گر رہی ہیں۔” ڈاکٹر صاحب نے منہ بنا کر کہا۔

“جناب مجھے تو دیوار گرانے میں سوائے گورنر ہاؤس کے نظارے کے اور کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ حالاں کہ ہر اتوار کو سب گورنر ہاؤس کے اندر جا کر اچھی طرح اس کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ اور پھر سکیورٹی کے مسائل ہو سکتے ہیں۔ سات آٹھ کروڑ جو بنی بنائی دیوار گرا کر جنگلہ لگانے پر خرچ کرنا ہے۔ اسی رقم سے کروڑوں خاندانوں کو مرغیوں کا سیٹ دیا جاسکتا تھا، لا کھوں خاندانوں کو کٹے دئیے جا سکتے تھے اور ہزاروں خاندانوں کو بھینسیں دی جاسکتی تھیں تا کہ ان کا کاروبار بھی چلے۔ گورنر ہاؤس کے نظارے سے انہیں کیا ملے گا۔” میں نے اپنا موقف بیان کیا۔

” دیکھیئے قبلہ! بھینسوں کا تو آپ ذکر مت کیجئے۔ آپ ہر بات میں فائدے مت ڈھونڈا کیجئے۔ دل کی خوشی بھی کوئی چیز ہے۔ روز صبح جب لوگ گورنر صاحب کو چہل قدمی کرتے دیکھا کریں گے اور گورنر صاحب جنگلے کے پیچھے سے ہاتھ ہلا کر انہیں صبح بخیر کہیں گے تو غریب عوام کا سارا دن اسی خوشی میں گذرے گا۔ ” ڈاکٹر صاحب کب ہار ماننے والے تھے۔

” ڈاکٹر صاحب گورنر ہاؤس کو عوام کے لئے کھولنے کا بھی کیا فائدہ ہوا۔ چند دن ہلہ گلہ رہا پھر خاموشی، اسی طرح جنگلہ لگا دینے سے چند دن لوگ دور سے نظارہ کریں گے پھر یہ نظارہ اپنی اہمیت کھو دے گا۔ ایک ہی منظر کوئی کب تک دیکھ سکتا ہے۔ تب آپ کو احساس ہو گا کہ کروڑوں روپے خواہ مخواہ خرچ کر دیئے گئے۔ جب کہ اتنی مشکل سے پرائم منسٹر ہاؤس کی پرانی گاڑیاں اور بھینسیں بیچ کر ملک کی معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ میرے پاس جواب تھا۔”

” اجی دیواروں سے ہمیں کتنی نفرت ہے آپ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ اکبر اعظم نے انار کلی کو دیوار میں چنوایا تھا۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ ہر دیوار گرا دی جائے۔ دیوارِ برلن بھی تو گرا دی گئی تھی۔ آپ دیواریں قائم رکھنے کے حامی ہیں لگتا ہےآپ محبت کے دشمن ہیں۔” ڈاکٹر صاحب پھر مذاق کے موڈ میں آ گئے۔

” جانے دیجئیے میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ دیوار گرانے کا نادر مشورہ وزیرِ اعظم کے کس انمول رتن نے دیا ہوگا۔” میں نے کہا۔

ارے صاحب کمال ہو گیا، میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔ دیکھا ایک دیوار نے دو مختلف الخیال لوگوں کی سوچ کو ایک کر دیا۔ ویسے آپ یہ کیوں جاننا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا۔

” میرا مقصد بھی وہی ہے جو آپ کا ہے۔ میں ایسے ذہین شخص کا دیدار کرنا چاہوں گا۔ آپ کو پتا ہو تو بتا دیجئے۔” میں نے معنی خیز لہجے میں کہا۔ ڈاکٹر صاحب نے صرف گھورنے پر اکتفا کیا لیکن میں اب تک یہی سوچ رہا ہوں کہ یہ مشورہ کس کا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).