نا مناسب سامان


ان کو جہاز کی کھڑکی والی سیٹ چاہیے تھی۔ جواز دونوں مناسب تھے۔ ایک تو ہم سے عمر میں بڑے تھے اور دوسرا ان کے بقول کچھ عرصہ پہلے ان کو ایک نجی ائیر لائن کی پرواز کے دوران ہارٹ اٹیک آچکا تھا۔ چونکہ یہ دوسرا اٹیک تھا اس لئے وہ کھڑکی والی سیٹ پر سکون سے سفر کرنے کے متمنی تھے۔ ہم نے بادل نخواستہ ان کے لئے اپنی سیٹ چھوڑی۔ وہ ہمیں زہر لگنے ہی لگے تھے کہ انہوں نے بات چیت کا آغاز کیا۔ رسمی گفتگو جیسے کہاں سے آئے ہو، کہاں جا رہے ہو، کیا کررہے ہو۔ ان تمام باتوں سے وہ تقریبا نا آشنا تھا۔ زندگی بھر اندرون ملک کے ساتھ بیرون ملک ہمیشہ سفر میں رہا اس لئے یہ رسمی باتیں ان کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھیں۔

آج تو وہ اکیلے سفر کررہے تھے مگر کچھ عرصہ پہلے دوران سفر جب ان کو ہارٹ اٹیک ہوا تو ان کا چھوٹا لڑکا ان کے ساتھ محو سفر تھا۔ ان کے بقول اگر ان کا بیٹا ان کے ساتھ نہیں ہوتا تو شاید وہ زندگی کی بازی ہار جاتے۔ وہ ان کا لکی دن تھا۔ جب ان کو اٹیک آیا تو جہاز میں ان کے ساتھ ایک عدد ہارٹ سرجن بھی محو سفر تھے جس نے بروقت ان کی مدد کی اور جہاز کے لینڈ کرتے ہی انہیں ہسپتال پہنچایا گیا۔ ان کی جان بچ گئی۔ کہانی کا دردناک پہلو ابھی باقی تھا۔

وہ بتانے لگے کہ جیسے ہی ان کو اٹیک آیا ان پر نیم بے ہوشی طاری ہوگئی۔ ان کو ان کی سیٹ سے اٹھا کرجب فرش پر لٹایا جارہا تھا تو جہاز میں موجود ائیر ہوسٹس ان کی جیبیں ٹٹولنے میں لگی ہوئی تھی۔ ان کو نیم بے ہوشی میں ایسا لگا کہ وہ ان کی جیب سے نقدی نکالنے کے چکر میں ہے۔ مگر ہسپتال میں جب ان کو ہوش آیا تو پتہ چلا کہ ان کے جیب میں موجود کیش موجود تھا۔ نہیں تھا تو صرف بورڈنگ کارڈ کا وہ ٹکڑا جسے بنیاد بنا کر ان کی موت کی صورت میں انشورنس کلیم کیا جا سکتا تھا۔ بہت دکھ تھا ان کو کہ ہم اخلاقی سطح پر اتنے گر چکے ہیں کہ مرتے ہوئے آدمی کو بچانے کے بجائے ان کی جیبوں کی تلاشی لے رہے ہوتے ہیں۔ صرف اس لئے کہ ان کی جیب میں کوئی ایسی چیز نہ رہ جائے جس سے ہمیں نقصان کا اندیشہ ہو۔ یا مرنے والے کے وارثوں کو کوئی فائدہ ہو۔

اسی گپ شپ اور ان کی آشک بھری آنکھوں کے نظارے جاری تھے کہ ائیر ہوسٹس ہماری ڈیمانڈ کے برخلاف ایک مقامی اخبار پکڑا کر چلی گئیں۔ ہم اخبار میں گم ہوگئے اور ہمارے ہم سفر نیند کی پرسکون وادیوں میں۔ ان کی اٹیک والی کہانی سے ہم کافی خوفزدہ ہوگئے تھے اس لئے اخبار پڑھتے پڑھتے ان کی سانسوں کی روانی پر بھی دھیان دیتے رہے۔ ریفرشمنٹ کا آغاز ہوا تو موصوف بیدار ہوئے اور ریفرشمنٹ آئٹم کے ساتھ خوب انصاف کیا۔ ہم دونوں کا انصاف جب ختم ہوا تو گپ شپ کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔

ہمارا سوال تھا کہ موجودہ حکومت سے مطمئن ہیں؟ برجستہ جواب تھا کہ عمران خان بائیس سال ملک کی تقدیر بدلنے کے لئے سیاسی جدوجہد کررہے تھے۔ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ وہ اقتدار میں آئیں گے تو ان کے پاس ملکی مسائل کے حل کے لئے کوئی تیار پلان ہوگا۔ اور وہ آہستہ آہستہ اپنے منشور پر عمل درآمد شروع کروائیں گے۔ ہم غلط تھے۔ گزشتہ بائیس سالوں میں اگر انہوں نے پلاننگ نہیں کی تھی تو آنے والے پانچ سالوں میں کیا تیر ماریں گے۔ ہم بے سمت لوگ ہیں، بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح۔ ہر نیا چرواہا ہماری سمت بدل دیتا ہے اور ان کے دور اقتدار میں ان کے بتائے ہوئے سمت پر محوسفر رہتے ہیں۔ منزل کا نشان کسی کے پاس نہیں۔

خیر شام سات بجے سے کچھ دیر پہلے ہم اسلام آباد انٹرنیشنل ائیر پورٹ پراتر گئے۔ میں نے سامان کے خانوں سے اپنا اور ان کا بیگ اٹھایا۔ ان کو آفر کی کہ بیگ باہر گاڑی تک میں اٹھا سکتا ہوں۔ انہوں نے سختی سے منع کیا۔ ہم دونوں ساتھ چلتے چلتے سامان کے حصول کے کاونٹر پر آکر کھڑے ہوگئے۔ گپ شپ جاری رہی۔ ان کے چہرے پر ایک دم سے مسکراہٹ کھل اٹھی۔ میں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو انگلی سے سامان کے حصول کے کاونٹر پر لگی ہوئی بورڈ کی طرف اشارہ کرنے لگے۔

جہاں جلی حروف میں لکھا ہوا تھا ”نامناسب سامان“۔ مسکراتے چہرے کے ساتھ کہنے لگے کہ ہمارا صرف سامان نامناسب نہیں ہے۔ ہماری پوری قوم غیر مناسب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے منتخب ہونے والے ہمارے رہنما نامناسب ہیں۔ جبھی تو ملک میں حکومت چلانے کے طریقے ”نامناسب“ ہوگئے ہیں۔ ان نامناسب طریقوں سے ہم ملک یا قوم کی تقدیر کیسے بدل سکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).