متبادل بیانیہ: خورشید ِفکر و خیال


اوّل اقبالؒ، ان کے بعد انتظار حسین۔ اقبالؒ نے تو فقط اتنا ہی کہا تھا

ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح وشام تو

دوڑ چل پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

انتظار حسین فرمانبردار نکلے، انھوں نے یہ بات سنی اور گردش ایام کو ایسا پیچھے کی طرف دوڑایا کہ دفتر کے دفتر لکھ ڈالے، بس یہی جرم تھا جس کے سبب وہ ماضی پرست ٹھہرائے گئے۔  ماضی اچھا ہو یا برا، اس کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے اندر جھانکنے والے کو اپنی نرم گرم گود میں سمیٹ کر ایسا مسحور کردیتا ہے کہ کچھ نہ پوچھئے۔  ماضی میں جھانکنے کا ایک درجہ اور بھی ہے جس کا تجربہ حال ہی میں ہوا۔ سوال یہ تھا کہ ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں کاتا اور دوڑی یا یوں کہہ لیجیے کہ جذبات کے وفور میں نہلے پہ دہلا مارنے کی جوعادت سرایت کر گئی ہے، کب سے ہے، کیوں ہے اور اس نے کیا کیاستم ڈھائے ہیں؟ سوال بڑا گمبھیر اور پیچیدہ ہے، اس کا جواب معاشرتی رویوں، نفسیات اورعادات میں تلاش کرنا چاہیے۔  بس اسی کھوج میں اُن اخبارات پر نظر دوڑانے کا موقع ملا جو گزشتہ صدی کی پانچویں، سچھٹی، آٹھویں اور دسویں دہائیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔  ان اخبارات میں ان بزرگوں کے نام، کام اور کلام بڑی تفصیل سے ملتے ہیں جن کے سخن، تدبیر اور بے تدبیری کے باوصف ہم ان حالوں کو پہنچ چکے ہیں جن پر گاہے فخر سے سینہ چوڑا ہوجاتا ہے اور گاہے نگاہیں جھک جاتی ہیں اور ایک ہوک کے ساتھ یہ سوال جنم لیتا ہے کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟

گزشتہ پانچ چھ دہائیوں کے نشیب و فراز سے بذریعہ اخبارات گزرتے ہوئے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ ہمارے جسد اجتماعی میں سب سے زیادہ دخل جذبات کو ہے، ہمارے بیشتر فیصلے اور ان فیصلوں پر ردعمل جذبات ہی کے آتش فشاں سے پھوٹا اور ہماری قومی زندگی کی اونچ نیچ کو برابر کرتا چلا گیا۔ بزرگوں کی نسل اور ہمارے درمیان کئی دہائیوں، بدلتے ہوئے روّیوں اور ٹیکنالوجی کے انقلاب کا فاصلہ ہے جس نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا لیکن اس کے باوجود اگر کچھ نہیں بدلا تو وہ ہمارا یہی رویہ ہے جس کی تند وتیز لہروں پر سوار ہوکر ہم اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلے کیا کرتے ہیں۔  سامنے کی بات یہ ہے کہ جذبات کی آندھی میں اُڑجانے، طوفان کی لہر میں

بہہ جانے اور کسی بدلتے ہوئے رجحان کو سمجھے بغیر اس کی حمایت و مخالفت کا رجحان ایسا ہے جو ہماری نفسیات کا حصہ بن چکا ہے جس کے مظاہر 1953ء اور1977 ء کی عوامی تحریکوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات میں صاف دکھائی دیتے ہیں۔  بعد کے بڑے واقعات کے واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو بھی یہی حقیقت سامنے آتی ہے۔  شدت ِجذبات کی یہی کیفیات ہیں جن کے سبب کچھ ایسا ہوتا ہے کوئی نہ کوئی رو آبادی کے غالب حصے کو اپنے ساتھ خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتی ہے، پھر جب ہوش آتا ہے تو ہم کف افسوس ملتے دکھائی دیتے ہیں۔

یہ معاملہ صرف سیاست تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے بیشتر شعبے اسی کی لپیٹ میں ہیں۔  شدت پسندی اور اس کے نتیجے میں طوفان کی طرح پھوٹ بہنے والی دہشت گردی کے اثرات اور ان اثرات کے اثرات سے ہم ابھی تک نبرد آزما ہیں۔  یہ قضیہ یقینا عالمی شکست و ریخت اور ان کے نتائج کی پیداوار ہے لیکن ہمارے جغرافیے کے قریب و دور جنم لینے والے حالات کی توضیح ہمارے سیاسی، مذہبی اور ثقافتی پس منظر میں کچھ ایسی ہوئی کہ سب کچھ الٹ پلٹ کررہ گیا۔ اس طرح کی افتاد میں معاشرہ اگر پرانی ڈگر پر ہی چلتا رہے تو صورت حال پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتی جاتی ہے جس کا تجربہ ہمیں خوب ہے۔  دوسری صورت یہ ہے کہ معاشرے کے اندر سے ہی کوئی جوہر قابل اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اپنے ماضی و حال کو کھنگال کر مرض کی تشخیص اور علاج کے لیے سرگراں ہوجاتا ہے۔  ایسی کئی مثالیں ہمارے ہاں موجود ہیں۔  تاریخ کے مختلف مراحل میں بروئے کار آنے والے ہمارے بزرگوں نے زمانے کی نا قدری اور آباؤ ¿ اجدادکی بنائی ہوئی راہوں پر چلنے کے خوگر پاک دل و پاک باز بزرگوں کی مخالفت مول لے کر بھی قوم میں نئے اسالیب فکر و عمل فروغ دینے کی کوشش کی اور اللہ کے فضل و کرم سے کامیاب رہے۔

برصغیر کے نہایت قدیم تمدن میں جدید تعلیم، قبائلی معاشرت میں جمہوری انداز فکر کی جڑیں مضبوط کرنے اور بندھے ٹکے انداز فکر میں جدید فکر و فلسفہ کو راہ دینے کا نتیجہ تاریخِ عالم کے ایک عظیم الشان واقعے یعنی قیام پاکستان کی شکل میں برآمد ہوا۔ سرد جنگ کے اثرات بد اور اس عالمی کشمکش کے خاتمے کے نتیجے میں پاکستان اور اس خطے پر جو اثرات مرتب ہوئے، ان سے نمٹنے کے لیے بھی فکر نو ہی کی ضرورت تھی جو بدقسمتی سے بروئے کار نہ آسکی اور ہم تہہ در تہہ مسائل کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔  یہ صورت حال یقیناحوصلہ افزا نہ تھی لیکن اس تاریکی میں ہمارے خوش قسمت معاشر ے میں فکرو خیال کے کئی خورشید روشن رہے اور پورے خلوص اور دیانت کے ساتھ مرض کی نشان دہی کر کے قوم کو اس کے اصل مسائل کی طرف متوجہ کرتے اور بتاتے رہے کہ ہمارا اصل مسئلہ لگا بندھا انداز فکر ہے۔

یہ لگا بندھا انداز فکر ایک ایسا بوڑھا درخت ہے جس سے فکر و خیال کی نئی کونپلیں پھوٹنا بند ہوچکی ہیں اور معاشرہ نظریاتی طور پر ایک ایسے تالاب میں بدلتا جارہا ہے جو تازہ پانیوں سے محروم ہونے کی وجہ سے سوکھتا اور سڑانڈ میں بدلتا جارہا ہے۔  ہمین اس جانب متوجہ کرنے والون میں ایک نمایان نام خورشید احمد ندیم کا ہے جو برس ہا برس سے تند وتیز آندھیوں میں نئی فکر کا دیا جلائے بیٹھے ہیں اور اِدھر اُدھر سے ہونے والی سنگ باری کے باوجود مستقل مزاجی سے اپنا کام کرتے جارہے ہیں۔  برادرم خورشید احمد ندیم نے گزشتہ چند برسوں کے دوران میں انتہا پسندی، دہشت گردی، سیاسی اتار چڑھاؤ ¿، تعلیم و تعلم اور فقہی الجھنوں کے موضوعات پر جو جگر سوزی کی ہے، اس کا بیشتر حصہ ان کی تازہ کتاب ”متبادل بیانیہ“ میں سامنے آچکا ہے جو فرسودہ انداز فکر میں سوچنے کی نئی راہیں اور جذبات کی تند وتیز آندھیوں میں غور و فکر کے نئے دریچے کھولتا ہے۔

موجودہ نظریاتی افراط و تفریط کی بھول بھلیوں میں یہ کتاب روشنی کی ایک کرن کی حیثیت رکھتی ہے۔  جن معاشروں میں خورشید احمد ندیم جیسے اہل قلم دامن دل کو وسعت، انگلیاں فگار اور گریباں چاک کرنے کا فریضہ انجام دینے کا کار خیر انجام دیتے رہتے ہیں، ان معاشروں کے مستقبل کے بارے میں امیدو سربلندی کے دیے ہمیشہ روشن رہتے ہیں۔  میں اس تمھید کے ساتھ ’متبادل بیانیہ‘ کا خیر مقدم کرتا ہوں اور توقع رکھتا ہوں کہ اس دیے کی لو آنے والے دنوں میں بڑھتی جائے گی اور قوم اپنی منزل سے قریب تر ہوتی جائے گی، انشا اللہ۔ اس شاندار کتاب کی اشاعت پر میں اسلامک انٹر نیشنل یونیورسٹی کے ادارے اقبالؒ انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے تحقیق ومکالمہ کے سربراہ ڈاکٹر حسن الامین کو مبارک بادپیش کرتا ہوں اور اس کے مطالعے کی سرشاری کا موقع عطا کرنے پر برادرم یونس قاسمی کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).