سیکولر گاؤں، مدرسہ اکوڑہ خٹک اور تحریک انصاف


یہ ایک سیکولر گاؤں تھا۔ اس میں رہنے والے تمام لوگ مسلمان تھے۔ کچھ سنی، کچھ شیعہ اور کچھ وہابی (دیوبندی مسلک کے لوگوں کو یہاں وہابی کہتے تھے)۔ زیادہ تر لوگ آپس میں رشتہ دار تھے۔ بہت سے ایسے خاندان بھی تھے جن میں میاں اور بیوی کا فرقہ الگ الگ تھا کیونکہ فرقہ شادی میں رکاوٹ نہیں تھا۔ ایسے خاندان جن میں میاں بیوی کے مسلک الگ الگ تھے ان میں بچے اپنا مسلک اپنی مرضی سے چنتے۔ والدیں یا رشتہ داروں کو ہم نے کبھی مسلک کے انتخاب پر جھگڑتے نہیں دیکھا۔ کئی لوگ مسلک تبدیل بھی کر چکے تھے۔

گاؤں میں تین مسجدیں اور ایک امام بارگاہ تھی۔ چاروں جگہیں مقدس تھیں۔ ایک مسجد قدرے بڑی تھی۔ اسے سب لوگ جامع مسجد کہتے تھے۔ اس میں پچھلی پانچ دہائیوں میں کل دو امام صاحب رہے تھے۔ دونوں ہی گاؤں کے نہایت معزز بزرگ تھے۔ جو جونئیر امام صاحب یعنی شاگرد تھے وہ سینئر امام صاحب کی عدم موجودگی میں امامت کرواتے تھے اور بڑے امام صاحب کی وفات کے بعد جونیئر امام صاحب کو مستقل امام بنا دیا گیا۔

دونوں امام صاحبان کے روزی کے ذرائع امامت کے علاوہ تھے اور وہ مسجد سے کوئی تنخواہ نہیں لیتے تھے۔ دونوں ہی امام صاحبان کا مسلک وہابی تھا جو کہ پورے گاؤں میں صرف چند اور لوگوں کا مسلک تھا لیکن اس بات پر کہ امام صاحب وہابی ہیں اور اسی فیصد مقتدی بریلوی ہیں کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ امامت کے ساتھ ساتھ امام صاحب نکاح، جنازہ اور نوزائیدہ  بچے کے کان میں آذان دینے کے فرائض بھی نباہتے۔ مسجد میں کوئی بھی نماز پڑہنے آ سکتا تھا۔ مثلاً کوئی اگر ہاتھ کھول کر بھی نماز پڑہ رہا ہوتا تو یہ کوئی فکر یا تعجب کی بات نہ تھی۔

امام صاحب شام کے وقت بچوں کو ناظرہ قران پڑہاتے تھے۔ اس کام کے بھی کوئی پیسے نہیں لیتے تھے ہاں البتہ بچے اور بچیاں مولوی صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ کے کام کاج میں تھوڑی بہت مدد کر دیتے۔ قران مجید پڑھنے کے لئے بچے اور بچیاں ہر شام ان کے گھر پر جمع ہو جاتے۔ اس کے لئے کوئی یونیفارم یا ڈریس کوڈ نہیں تھا۔ سارے لڑکے اور لڑکیاں اپنے عام لباس میں بغیر کوئی کمی یا اضافہ کیے مولوی صاحب کے گھر کے صحن میں پہنچ جاتے۔ تھوڑی بہت کھیل کود بھی جاری رہتی اور سب اپنا اپنا “سبق یاد” کر کے مولوی صاحب کو سناتے اور “نیا سبق” لیتے اور کھیلتے کودتے گھروں کو لوٹ جاتے۔ کچھ بچوں کو اگر سبق یاد نہ ہوتا تو مولوی صاحب ہلکی سی چپت بھی لگا دیتے تھے اس سے سے زیادہ مار پٹائی کبھی نہیں دیکھی گئی۔ گاؤں کا ہر شخص مولوی صاحب کا شاگرد تھا لہٰذا مولوی صاحب کی عزت اور احترام بہت زیادہ تھا۔ ہر کوئی ان کو سلام کرتا اور اگر کسی محفل میں وہ آتے تو کئی لوگ عزت سے کھڑے ہو جاتے اور ان کے لئے سب سے زیادہ آرام دہ سیٹ چھوڑی جاتی۔

باقی دونوں مسجدیں، ایک شیعہ والی مسجد اور دوسری چھوٹی مسجد کہلاتی تھی۔ شیعہ والی مسجد کے نمازی شیعہ اور سنی دونوں تھے۔ آذان بھی کبھی شیعہ والی ہوتی اور کبھی سنی والی۔ اکثر ایک ہی وقت کی نماز کے لئے دو الگ الگ جماعتیں کھڑی ہوتیں۔ یہ سب کئی نسلوں سے ہو رہا تھا اس لئے اس میں کچھ عجیب نہیں تھا۔

کسی بھی مسجد میں لاؤڈسپیکر نہیں تھا ہاں کبھی کبھی جب کسی بڑے عالم دین کو اس گاؤں میں آ کر وعظ پڑہنے یعنی تقریر کرنے کی دعوت دی جاتی تو اس وقت لاؤڈسپیکر کرائے پر لائے جاتے۔ ان لاؤڈسپیکروں کے کرائے اور مہمان عالم دین کی وعظ کی فیس ادا کرنے کے لئے سارے گاؤں کے لوگوں سے ایک مقررہ چندہ جمع کیا جاتا جو بعض لوگ خوشی سے اور بعض بغیر خوش ہوئے ادا کر دیتے تھے۔ چندہ وصولی کی خاطر رضاکاروں کو گھر گھر جانا پڑتا تھا۔

گاؤں میں موت بہت اہم واقعہ سمجھا جاتا تھا اور سبھی لوگ اپنے کام چھوڑ چھاڑ کر متاثرہ خاندان کی خدمت اور مدد میں لگ جاتے۔ تدفین کا سارا کام گاؤں کے لوگ مل کر کرتے اور اس پر کسی قسم کے کوئی اخراجات نہ اٹھتے۔ نماز جنازہ میں شرکت بہت اہم سمجھی جاتی تھی لہٰذا ہر بالغ مرد شامل ہونے کی کوشش کرتا۔ نماز جنازہ میں شیعہ، سنی اور وہابی سبھی شامل ہوتے۔

گاؤں کے سب لوگ عورتیں اور مرد ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ اور کسی کو کسی سے منہ چھپانے کی ضرورت نہیں تھی۔ جب کہیں سامنا ہوتا تو ایک دوسرے کو سلام کرنے اور حال احوال دریافت کرنے کا رواج عام تھا۔ اس میں مرد اور عورت کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔ سب لوگ صدیوں سے چلا آنے والا لباس پہنتے تھے۔ تمام عورتیں مناسب سائز کا دوپٹہ اوڑہتی تھیں۔ کسی کو برقع پہننے ضرورت نہیں تھی۔ تھوڑی بہت تبدیلی بھی چلتی تھی۔ کچھ نوجوان لڑکوں نے جین وغیرہ بھی شروع کر دی تھی۔ لڑکیوں کے لئے بھی کوئی غیر معمولی سختی نہ تھی۔ ایک دن ایک تیرہ چودہ سال کی لڑکی نے بڑے شوق سے بال بنائے اور دوپٹہ گلے میں ڈال کر اپنی دوست کے گھر جا رہی تھی کہ راستے میں گاؤں کے ایک بزرگ سے آمنا سامنا ہوا۔ بزرگ نے کہا “او جھلی بچی دوپٹہ سر پہ لیتے ہیں” بچی نے کہا “بابا جی میں نے بڑی محنت سے بال بنائے ہیں اور دوپٹہ لینے سے خراب ہو جائیں گے” بابا جی نے کہا “اچھا بچہ کوئی بات نہیں” اور لڑکی کے سر پر شفقت کا ہاتھ احتیاط سے پھیرا تاکہ بال خراب نہ ہوں۔

گاؤں میں ایک ہی سرکاری پرائمری سکول ہوتا تھا جس میں بچے اور بچیاں دونوں اکٹھے پڑہتے تھے پھر لڑکیوں کے لئے سرکار نے الگ سکول بنا دیا۔ گاؤں کے تقریباً سارے بچے اور بچیاں ان سکولوں میں جاتے تھے۔ گاؤں میں کوئی مدرسہ نہیں تھا اور لوگوں نے کبھی اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی تھی۔

گاؤں میں ایک دن کوئی تقریب تھا بہت سے لوگ ایک جگہ پر جمع تھے۔ ایسے ہی گپیں چل رہی تھیں کہ ایک آدمی نے کہا کہ گاؤں میں ایک مدرسہ ہونا چاہیئے اور ایک اور آدمی نے اس بات کی فوراً حمایت کر دی۔ یہ دونوں صاحبان اسی گاؤں میں پیدا ہوئے اور پلے بڑہے تھے۔ اچھا پڑھ جانے کی وجہ سے شہروں میں اچھی نوکریاں کر رہے تھے اور اپنے بیوی بچوں سمیت وہیں بس گئے تھے۔ معقول آمدنی کی وجہ سے ان کے بچے اچھے پرائیویٹ سکولوں میں پڑھ رہے تھے۔ انہیں اپنے لائق فائق بچوں پر بڑا فخر تھا اور ان کے روشن مستقبل کے بارے میں بہت خواب سجا رکھے تھے۔ خیر ان دونوں اصحاب نے گاؤں میں مدرسہ قائم کرنے کی تجویز دی اور ساتھ ہی کمال سخاوت سے عطیہ کا اعلان بھی کر دیا۔ محفل میں موجود زیادہ تر لوگوں کو اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آئی۔ ایک بزرگ نے البتہ کچھ بے چینی ظاہر کی۔ اور کہا کہ ٹھیک ہے ہم مدرسہ تو قائم کر لیں گے لیکن ایک شرط ہے کہ آپ دونوں صاحبان مالی تعاون کے ساتھ ساتھ اپنا ایک ایک بچہ بھی مدرسے میں پڑہنے کے لئے بھیجیں گے۔ گاؤں میں مدرسہ قائم کرنے کی تجویز وہیں ختم ہو گئی۔

میں سوچ رہا تھا اس سیکولر گاؤں کے اس بزرگ کی شرط آج پی ٹی آئی اور کے پی کی حکومت کے سامنے بھی رکھنی چاہیئے۔ تیس کروڑ روپے دیں مگر عمران خان، پرویز خٹک اور صوبائی کابینہ کے وزیر اپنا ایک ایک بچہ یا پوتی پوتا بھی دارالعلوم حقانیہ یونیورسٹی اکوڑہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجیں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments