بات کیجیے سرِ بازار غلط


جناب نواز شریف اگر 33 سال پرانے واقعے کے حوالے سے اپنی لاعلمی کا اظہار کریں تو یہ بات منطقی اور سمجھ میں آنے والی ھے مگر کوئی وزیراعظم دو دن قبل اپنی ہی حکومت کی ناک کے نیچے وقوع پذیر ہونے والے اہم اور دور رس حادثے کے متعلق اپنی بے خبری ظاہر کرے تو یہ امر صریحاً اس کی نااہلی اور ریاستی و حکومتی معاملات میں اس کی گرفت کے انتہائی کمزور ہونے کی علامت ہو گا۔ ملک کے نامور صحافیوں کے ساتھ وزیراعظم کی سیر حاصل اور تفصیلی گفتگو بدقسمتی سے مجموعہ اضداد اور مضحکہ خیز صورت حال کی غماز تھی، جس میں انہوں نے ملک میں رونما ہونے والے چند اہم معاملات کے بارے میں اپنی بے خبری کا اظہار کرکے جگ ہنسائی اور حکومتی کل پرزوں کے باہمی اختلاف کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑ دیا۔ جب وہ اپوزیشن میں تھے تو حکومتی، ملکی اور بین الاقوامی معاملات پر زیادہ گہری اور وسیع نظر تھی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ان کی بے خبری کی انتہا یہ ہے کہ نہ انہیں عالمی مارکیٹ میں ڈالرکی قیمت میں ہوش ربا اضافے کی خبر ہوتی ہے نہ اعظم سواتی کے خلاف عدالت کے فیصلے کا پتہ چلتا ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی ممکن ہے کہ جناب وزیر اعظم اردو و فارسی شاعری کے روایتی محبوب کی طرح تجاہلِ عارفانہ سے کام لے رہے ہوں اور بقول غالب صورتِ حال یہ ہو
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حالِ دل اور آپ فرمائیں گے کیا
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس سلسلے میں انہیں روحانی اور غیر مرئی قوتیں بھی کچھ نہیں بتاتیں،سو دن کی حسن کارکردگی کا سہرا جن کے سر جاتا ہے۔ آشنائے راز درون خانہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ آج کل جناب وزیراعظم روحانی حوالے سے سخت ریاضت اور تپسیا سے کام لے رہے ہیں اور وہ فنافی الذات کے مرحلے سے گزر کر فنا فی اللہ کی منزل پر پہنچ چکے ہیں۔ کوئی سالک جب اس منزل سے آشنا ہوجاتا ہے تو من وتُو کا وصال ہو جاتا ہے اور وہ فہم و ادراک اور عرفان و آگہی کے ایسے بلند و بالا مقام سے ہمکنار ہو جاتا ہے کہ جس کے بارے میں صوفی شاعر نے یوں انکشاف کیا ہے
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
اگر روحانی بالیدگی اور باطنی ترفع کا معاملہ نہیں تو پھر لامحالہ وہ جان بوجھ کر اس حوالے سے اغماض اور چشم پوشی کی روش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ کہ اس حکومت سے افراتفری اور نفسانفسی کے عالم میں ایسے کام سرزد ہو رہے ہیں کہ نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پاؤں رکاب میں والا معاملہ ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ اگر اس طرح کی صورت حال واقع ہو جائے تو دانا،بلند ہمت اور بھلے مانس لوگ فوراً اپنی غلطی کا احساس کر کے اسے تسلیم کرتے ہیں اور ندامت کا اظہار کر کے آئندہ ایسی حرکتوں سے باز آجاتےہیں۔ لیکن یہ ان کا کام ہے جن کے حوصلے زیاد اور نگاہ بلند و سخن دل نواز ہوتا ہے۔ مگر ہمہ وقت سب وشتم کرنے، جھوٹے الزام لگانے، سیاسی مفاد کے لیے گدھوں کو باپ، ڈاکؤوں کو بھائی بنانے، الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کرنے، وقت پڑنے پر زرداری کو بھائی بنانے، معمولی فائدے کی خاطر یوٹرن (پیٹھ دکھانا) لینے، خادم رضوی سے عہد شکنی کرنے، مودی سے پینگیں بڑھانے کے لیے کلبھوشن، کشمیر، پانی جیسے معاملات پر سمجھوتہ کرنے اور اقتدار کے لیے مقتدر قوتوں کا آلہ کار بننے والے سے ہرگز یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کر کے اعتراف جرم کر لے۔ ہمارے کپتان کا حال تو بقول شاعر یہ ہے
ہم نواؤں کی نہیں کوئی کمی
بات کیجیے سرِ بازار غلط


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).