عمران خان کا طرزِ حکمرانی اور عوام کا بڑھتا اضطراب



میرے کپتان کو برسرِ اقتدار ہوئے ابھی محض سو روز ہی ہوئے ہوں گے کہ ان کے مثالی طرز حکمرانی اور سادگی کے قصے زبان زدِ عام ہوگئے ہیں۔ کبھی وہ اور ان کا موٹو پچاس روپے کلو میٹر کے حساب سے اڑنے والے ہیلی کاپٹر میں سفر کرکے سرکاری خزانے کا بوجھ ہلکا کر رہے ہوتے ہیں تو کبھی وزیراعظم ھاؤس کی گائے بھینسیں بیچ کر ملکی خزانے کو بھرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اتنے سادہ اور معصوم ہیں کہ انہیں پنجاب میں افسران کی اکھاڑ پچھاڑ کا بھی علم نہیں ہوتا تو اسلام آباد کے آئی جی کی تبدیلی کا بھی علم انہیں اخبارات کے ذریعے سے پتہ لگتا ہے۔ انہیں اپنے فرشتے وزیر، اعظم سواتی کے خلاف بننے والی جے آئی ٹی کا بھی علم نہیں ہوتا تو انہیں دیگر اہم ملکی معاملات کا بھی علم اخبارات یا ٹی وی دیکھ کر ہی ہوتا ہے۔ کیا بات ہے کپتان کی سادگی، معصومیت اور لاعلمی کی۔

اگر ایسے وزرائے اعظم کی عالمی درجہ بندی کی جائے جو ملکی اور معاشی معاملات سے صرف ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہی آشنائی حاصل کرتے ہوں تو شاید ہمارے کپتان پہلے نمبر پر ہوں گے۔ کپتان وزیراعظم بننے سے پہلے الله کی اس زمین پر موجود اس کے فرشتوں پر مشتمل ایک مختصر سی کابینہ تشکیل دینے کے دعوے کرتے نظر آتے تھے، مگر جب صاحب اقتدار ہوئے تو فرشتوں کی فراوانی کی وجہ سے اور خلق خدا کی خدمت اور ملک کی سیاسی، معاشی اور سماجی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوۓ انہوں نے فرشتوں کی تعداد میں اضافہ کردیا۔ وہ قوم سے اپنے تاریخی خطبات میں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ وہ ان سے کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے، ان سے کبھی غلط بیانی نہیں کریں گے۔ وہ قوم کی صحیح سمت میں ھمیشہ رہنمائی فرمائیں گے۔ وہ ایک ایسا قانون لائیں گے جس سب امیر غریب، طاقتور اور کمزور برابر ہوں گے، جہاں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پہ پانی پی سکیں گے، جہاں کسی اپنے پرائے سے کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔

کپتان بدعنوان عناصر کے خلاف سخت ترین مؤقف اختیار کرکے اپنی قوم کی امیدوں کا محور بن گئے۔ لیکن پھر پوری قوم نے دیکھا کہ کپتان کی کپتانی کے پہلے سو روز میں ہی ان کی ریاست مدینہ کی طرزِ حکمرانی کے دعوے کس طرح زمین بوس ہوگئے۔ فرشتوں کے بھیس میں چھپے دنیا جہان کے جانے مانے، گھاٹ گھاٹ کا پانی پیئے ہوئے تجربہ کار وارداتیے کس طرح ہمارے کپتان کے مثالی طرز حکمرانی کے خواب کو چکناچور کرتے نظر آئے۔ ہمارے کپتان نے پچھلے دنوں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا وہ ان کی معصومیت و سادگی سے زیادہ ان کی اہلیت اور قابلیت پر سوالیہ نشان ہے۔

کپتان نے سو روز کے دوران دو بار ڈالر کے ریٹ کو پر لگنے کے معاملے پر اپنی لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں معلوم نہیں تھا، اسٹیٹ بینک اپنے فیصلے کرنے میں خودمختار ہے اور اب وہ اس معاملے پر کوئی مکینزم بنانے کا سوچ رہے ہیں۔ لیکن وہ بھول گئے کہ فسکل اینڈ مانیٹرنگ کوآرڈینیشن بورڈ اسی کام کے لیے ہے۔ ایک طرف کپتان فرما رہے تھے کہ اسٹیٹ بینک نے روپے کی قدر کم کرنے پر انہیں اعتماد میں نہیں لیا تو دوسری جانب ان کے ٹیلنٹڈ انقلابی وزیر خزانہ فرما رہے تھے کہ دونوں بار روپے کی قدر کم کرنے کے بارے میں اسٹیٹ بینک کے علاوہ صرف دو لوگ جانتے تھے اور وہ تھے کپتان اور خود اسد عمر۔ اب اس بارے میں کپتان کی بات کو کیا سمجھا جائے کہ وہ واقعی لاعلم تھے یا پھر اس قوم سے غلط بیانی کر رہے تھے جس سے ھمیشہ سچ بولنے کا انہوں نے وعدہ کیا ہوا ہے۔

کپتان نے ٹی وی اینکرز سے گفتگو کرتے ہوئے اس سپریم کورٹ کے اس چیف جسٹس کے ریمارکس پر افسوس اور ناپسندیدگی کا اظہار بھی کردیا جو بقول ان کے کپتان کے ہر کام پر ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔ آخر صرف سو روزہ مختصر سی حکمرانی میں ہی ایسی کیا نوبت پیش آ گئی کہ انہیں اپنے ہی چیف جسٹس کے طرزِ عمل پر افسوس کا اظہار کرنا پڑا۔ ہمارے کپتان نے تو بڑی معصومیت سے یہ تک کہہ دیا کہ پاکستان آرمی تحریک انصاف کے منشور کے ساتھ کھڑی ہے، حالانکہ آرمی اپنی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے نہ کہ تحریک انصاف کے منشور کے ساتھ۔، جبکہ ایسا کہہ کر وہ ملک کے ایک معتبر ادارے کو متنازع بنا رہے تھے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ خان صاحب صرف تعریف اور مدح سرائی کے عادی ہیں ذرا سا اختلاف رائے انہیں افسوس اور ناپسندیدگی کا اظہار کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

چیف جسٹس نے بھی کپتان کے افسوس پر ردعمل دیتے ہوئے اسے غیرضروری قرار دیا اور کہا کہ ہمارے اقربا پروری کے ریمارکس پر خاصی لےدے ہوئی ہے مگر ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہمیں قانون کی حکمرانی کو اولیت دینی ہے۔ کپتان ٹی وی اینکرز کے ساتھ گفتگو میں اپنی مدینہ کی ریاست کے مستحکم ہونے پر بھی کچھ زیادہ مطمئن نظر نہیں آئے اور یہ کہہ کر اپنی عوام کو فکر و پریشانی میں مبتلا کر گئے کہ ملک میں وسط مدتی انتخابات خارج از امکان نہیں ہیں۔ انہوں نے جنوبی پنجاب صوبہ بننے سے پہلے وسط مدتی انتخابات کا عندیہ دیتے ہوئے اپنی اور اپنی حکومت کی اہلیت اور طرزِ حکمرانی پر ان گنت سوال کھڑے کر دیئے۔

کپتان کہتے رہے کہ نیب ان کے کنٹرول میں نہیں ہے ورنہ پچاس کرپٹ ترین لوگ جیل میں ہوتے جبکہ وہ اور ان کے وزراء اکثر چیئرمین نیب سے ملتے نظر آتے ہیں۔ انکے معتقد خاص زلفی بخاری کی دوہری شہریت پر سوالات اٹھانے والا اسپیشل پراسیکیوٹر جنرل نیب جبراً نیب سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے پھر بھی کپتان بڑی معصومیت سے کہتے ہیں کہ نیب ان کے اختیار میں نہیں ہے۔ کپتان ریاست مدینہ کی مثالی سو روزہ کارکردگی کو خاتون اول کی مرہون منت قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ہمارے نہیں، بشریٰ بی بی کے فیض کا کمال ہے یعنی بادی النظر میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان میں اور انکے رفقاء میں کوئی اہلیت نہیں ہے اگر بشریٰ بی بی نہ ہوتیں تو؟

انہیں تو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ وہ وزیراعظم ہیں۔ اگر بشریٰ بی بی خدا نخواستہ نہ ہوتیں تو کون انہیں بتاتا کہ وہ اس ملک کے وزیراعظم ہیں۔ مدینہ کی ریاست کے حاکموں کی سو روزہ طرز حکمرانی کے دوران معاملات انتظامی ہوں یا معاشی، سیاسی ہوں یا سماجی فرشتوں کی فوج ظفر موج نے اپنے اہلیت اور قابلیت کے سکے اس طرح بٹھائے ہیں کہ ووٹ دینے والے عوام سے لیکر مسند اقتدار پر بٹھانے والی قوتیں سب کے سب اضطراب کا شکار نظر آتے ہیں۔ ڈی پی او پاک پتن کا معاملہ ہو یا میاں محمودالرشید کے فرزند کے بدکاری کرتے پکڑے جانے کا، پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کی قابلیت، اہلیت اور صلاحیت کا معاملہ ہو یا پنجاب حکومت کی گورننس کا، اعظم سواتی کے معاملے میں مجرمانہ غفلت کا معاملہ ہو یا پھر اعظم سواتی کے خلاف بننے والی جے آئی ٹی سے کپتان کی لاعلمی کا، معاشی صورتحال میں روز روز یوٹرن لینے کا معاملہ ہو یا معاشی صورتحال پر عوام سے غلط بیانی کا، کپتان کی سو روزہ طرزِ حکمرانی کسی بھی طور اہلیت و قابلیت کے کسی بھی پیمانے پر پورا نہیں اترتی۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور آسمان کو چھوتے افراطِ زر، بجلی، گیس، پیٹرول اور اشیاء خوردونوش کو پر لگے اضافے نے عوام کو اضطراب بلکہ شدید ترین اضطراب میں مبتلا کردیا ہے۔

اوپر سے کپتان کی مرغیوں، انڈوں اور کٹوں کی بونگیوں نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے اور اہل وطن سمیت وہ قوتیں بھی سوچنے پر مجبور ہوگئی ہیں کہ کپتان پہ بھروسہ کرکے شاید ان سے غلطی ہوگئی ہے۔ کیونکہ قیادت کرنے والا صرف سو روز میں ہی اپنے اقتدار کے استحکام کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرے، انتظامی اور معاشی معاملات کی سنگینی پر عوام سے اپنی لاعلمی کا رونا روتے ہوئے غلط بیانی کرے، عوام کو ترقی، خوشحالی، قانون کی حکمرانی، کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کے سبز باغ دکھا کر اسکے الٹ کام کرے تو پھر ایسی طرزِ حکومت سے عوام متفکر ہو کر متنفر نہ ہوں تو کیا ہوں۔ اب یہ کپتان پر منحصر ہے کہ وہ اپنی ناقص طرزِ حکمرانی کو بہتر بنا کے اپنے آقاؤں اور عوام کو اضطراب کی گہری دلدل میں پھنسنے سے کیسے روکتے ہیں۔ یہ ان کا اور انکے فرشتہ صفت وزرا کا کڑا امتحان ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).