عورتوں کے لیے سب سے خطرناک جگہ ان کا اپنا گھر ہے


یہ جان کر بھی کہ عورتوں پر ہونے والے ظلم کے بیان پر بہت سے مَردوں کا منہ حلق تک کڑوا ہوجاتا ہے، میں یہ سطریں لکھنے پر مجبور ہوں۔ عورتوں پر تشدد کی تاریخ انسانی وجود کی طرح پرانی ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ اس ظلم کو ظلم تو تسلیم کیا جاتا ہے مگر اس کا تدارک آج تک نہ ہوسکا۔ شاید مردانہ سماج اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ کاتب تقدیر نے عورت کے جسم میں تشدد سہنے کے جراثیم خون اور روح کی طرح شامل کردیے ہیں، اسی لیے دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں کی خواتین بھی اس ظلم کی روک تھام میں بے بس ہو چکی ہیں۔

یہ دیکھ کر زیادہ دل کُڑھتا ہے کہ ایسے مرد الٹا عورتوں پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ گھر سے لے کر اداروں تک، بگاڑ کا اگر کوئی بڑا سبب ہے، تو ان کے نزدیک بس ایک عورت کا وجود ہی تو ہے، جس کے حق میں آواز اٹھانے والوں کو کبھی بیرونی ایجنڈے کا آلہ کار قرار دے کر کونے سے لگا دیا جاتا ہے تو کبھی کسی این جی او سے تعلق جوڑ کر خوب بدنام کیا جاتا ہے۔ عورت کے نام پر دنیا کی ساری فحش گالیوں سے منہ کا ذائقہ بدلنے والے مرد تو بعد از موت بھی اسے جہنم کے کسی عمیق گڑھے میں گلتا سڑتا دیکھنے کے متمنی ہیں، لیکن جب ان سے اُس جہنم کی بابت سوال کیا جاتا ہے جو انہوں نے دنیا میں ہی عورتوں کے لیے دہکا رکھا ہے تو وہ صنفِ نازک کو غلط اور خود کو درست ثابت کرنے کے لیے برداشت اور تحمل کی ساری باگیں چھوڑ کر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔

عورت کی طرف سے ہر وقت تیوریاں چڑھائے رکھنے والوں کی خدمت میں، اقوامِ متحدہ کی ایک تحقیقی رپورٹ کا خلاصہ پیش کرنا چاہتی ہوں، جس کا ان دنوں بین الاقوامی میڈیا پر بڑا چرچا ہورہا ہے۔ کیسے نہ ہو؟ اس رپورٹ کے نتائج کے بعد تو عورتوں کے معاملے میں پہلے سے معلوم تلخ حقائق مزید بھیانک شکل اختیار کر چکے ہیں۔ یہ رپورٹ صنفی امتیاز کی بنا پر عورتوں اور لڑکیوں کے پوری دنیا میں ہونے والے قتل کے واقعات کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔

صنفی بنیادوں پر ہونے والے قتل کے لیے انگریزی اصطلاح فیمی سائیڈ استعمال کی جاتی ہے۔ رپورٹ میں بیان کردہ خوف ناک حقائق کہتے ہیں کہ گذشتہ ایک سال میں جو عورتیں اور لڑکیاں قتل ہوئیں ان میں سے آدھی سے زیادہ عورتوں کے خون سے ان کے اپنے گھر کے مَردوں کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ یعنی اپنوں نے ہی ان کے لیے گھر کو مقتل اور مدفن بنا دیا۔ اسی رپورٹ کی بنا پر اقوامِ متحدہ نے عورتوں کے لیے ”گھر“ کو سب سے غیرمحفوظ اور خطرناک جگہ قرار دے دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق دنیا میں قتل ہونے والی ہر پانچ میں سے ایک عورت اپنے شوہر، محبوب یا خاندان کے کسی قریبی مرد رشتے دار کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دی جاتی ہے۔ گذشتہ ایک سال میں 87000 عورتیں قتل کی گئیں جن میں سے چونتیس فی صد شوہر اور چوبیس فی صد عورتیں دیگر قریبی رشتے داروں کے ہاتھوں ماری گئیں۔ قتل ہونے والی ان عورتوں کی اکثریت امریکا اور افریقی ممالک سے تعلق رکھتی تھی۔ اگرچہ اس رپورٹ کی تیاری میں قتل کے غیرحل شدہ کیسز کو شامل نہیں کیا گیا، اور نہ ہی جنگی خطوں میں ماری جانے والی عورتوں کا ڈیٹا حاصل کیا گیا ہے جو کہ تحقیق کاروں کے نزدیک ایک مشکل ترین امر تھا۔ عورتوں پر بڑھتے ہوئے ظلم اور تشدد کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ نے پچیس نومبر کو ”عورتوں پرتشدد کے خلاف عالمی دن“ قرار دے دیا ہے۔

اس گھریلو تشدد کی سب سے بڑی وجہ معاشرے کی وہ دقیانوسی روایتیں ہیں، جن کے تحت مرد کو لامحدود اختیارات سونپ دیے جاتے ہیں اور وہ زمین پر عورت کے خدا بن بیٹھتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق زیادہ تر عورتیں شوہر کی جنسی ضروریات پوری نہ کرنے کی وجہ سے بدترین تشدد کا نشانہ بنائی جاتی ہیں یا پھر قتل کردی جاتی ہیں۔ مغربی ممالک میں شراب کے نشے میں دُھت کسی پرانے بوائے فرینڈز کے ہاتھوں لڑکیوں کا قتل ہونا معمول بن چکا ہے۔

جنوبی ایشیا میں جہیز کا کچھ کم اور غیرت کا بہت زیادہ ہونا اگر عورتوں کے قتل پر اکساتا ہے تو افریقا میں جادوگری کے الزام میں عورتوں کے جان سے جانے کی شرح بہت زیادہ ہے۔ بعض ممالک میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل میں تو مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی شامل ہوکر ”ثواب“ کماتی ہیں۔ مَردوں کی طرح ان کے لیے بھی اپنی بیٹی یا بہن کی زندگی سے زیادہ اہم نام نہاد خاندانی وقار اور جھوٹی انا ہوتی ہے۔ تاہم ایسے واقعات کی تعداد کافی کم ہے۔

1970 میں پہلی بار عورتوں اور لڑکیوں کے قتل کے لیے فیمی سائیڈ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ بین الاقوامی این جی اوز اور عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کی کاوشوں سے رفتہ رفتہ اس تشدد کے خلاف شعور دنیا میں اجاگر ہوا اور لاطینی امریکا اور اس جیسے دوسرے ممالک جہاں عورتوں پر تشدد کی شرح بہت زیادہ تھی وہاں حکومتی سطح پر تشدد کی روک تھام کے لیے قانون سازی بھی کی گئی، اس کے باوجود عورتوں کے قتل کی شرح پوری دنیا میں اب بھی بہت زیادہ ہے۔

25 نومبر کو عورتوں پر تشدد کے خلاف منائے جانے والے عالمی دن پر، اس ظلم کے خلاف دنیا کے مہذب معاشروں کے باشعور افراد سڑکوں پر نکل آئے، جن میں گدازدل اور حساس جذبات رکھنے والے مَردوں کی بھی ایک بڑی تعداد نے شامل ہو کر ثابت کیا کہ سب مرد ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اس سال پچیس نومبر سے دس دسمبر (انسانی حقوق کے عالمی دن) تک اس نسوانی مگر عین انسانی المیے پر آگہی کا دیپ روشن کرنے کے لیے بے شمار ممالک میں ”اورینج دی ورلڈ“ کے عنوان سے سولہ دن کی آگہی مہم شروع کردی گئی ہے۔ اس مہم میں نارنجی رنگ کو طاقت، امید اور عورتوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف ایک علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ دنیا کے بے شمار ممالک میں حکومتی سطح پر اس مہم کو آگے بڑھایا جارہا ہے لیکن افسوس پاکستان جہاں کتنے ہی گھروں میں عورت بے گھر ہے، وہاں اس حوالے سے امید کا کوئی دیا روشن نہیں کیا گیا۔

یہ سچ ہے کہ ہر معاشرے میں گھریلو تشدد کے خلاف آواز بلند کرنا بے حد مشکل کام ہے، لیکن دنیا بھر کی حکومتوں کو باہمی اتفاق سے اس مشکل کام کا بیڑا اٹھانا ہی پڑے گا، کیوں کہ اقوامِ متحدہ کی یہ رپورٹ دنیا بھر کے معاشروں کے لیے قابلِ شرم ہے۔ بنا خوف کے زندگی بسر کرنے والی عورتوں کی تعداد کُل میں سے نصف بھی نہیں۔ یہ ہے مردوں کی دنیا، جہاں عورتوں کے لیے خاموشی کا کلچر ان کی بقا کا ضامن بنایا جاچکا ہے۔ عورتوں پر پھبتیاں کسنے والے، ان کو نادان اور کم فہم ثابت کرنے کے لیے وقت اور صلاحیتیں صَرف کرنے والے، نازک ہاتھوں میں گاڑی کا اسٹیئرنگ دیکھ کر ٹھٹھا اڑانے والے، کسی اونچے منصب پر براجمان عورت کے حوصلے بے جا تنقید سے پست کرنے والے اور عورت کو تمام معاشرتی عوارض کی جڑ گرداننے والے مرد کب تک اس حقیقت سے آنکھیں چُراتے رہیں گے کہ ان کی حاکمیت میں گھری، ہر تین میں سے ایک عورت جسمانی تشدد کا شکار ہورہی ہے۔

لیکن افسوس! انہیں یہ بات بُری تو کجا بڑی بھی نہیں لگتی۔ ”مردتو ہوتے ہی ایسے ہیں“ کا قول دہرا دہرا کر ان کو مزید شیر بنانے میں عورتیں بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہیں۔ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ تشدد کا شکار عورتیں برداشت کی حدیں توڑ بیٹھتی ہیں اور ردِعمل میں مَردوں کا قتل کر بیٹھتی ہیں۔ اس جرم میں قانون تو ان کو سزا کا حق دار ٹھہراتا ہے لیکن میری نظر میں وہ عورتیں مجرم نہیں بلکہ اپنے دفاع پر مجبور ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).