سلیم صافی اور صراطِ مستقیم


چند دن پہلے ہم سب گروپ کی آفیشل ویب سائٹ پر سلیم صافی صاحب کا کالم (یوٹرن اور صراطِ مستقیم) نظر سے گزرا ، سلیم صافی ایک زیرک صحافی اور کالم نگار ہیں ، وہ روزنامہ جنگ میں کالم لکھنے کے ساتھ ساتھ جیو نیوز پر پروگرام جرگہ کے میزبان بھی ہیں ، درجن سے زیادہ کالمز اُن کے میری نظر سے گزرے ہونگے ،
یہ درست ہے کہ صحافی بننا آسان نہیں، جان جوکھوں کا کام ہے ، معاشرے کے امراض کی تشخیص کرکے علاج بتانا ،سچ اور حقائق بتانا ، مشکل مسائل کا مناسب حل بتانا اور واقعات کو پوری صحت کے ساتھ درج کرنا کسی بھی صحافی کی ذمہ داریوں میں شامل ہے
لیکن اس سے زیادہ مشکل کام صحافت میں رہتے ہوئے اپنے نظریاتی مخالف کے سامنے بات کو مدلل انداز میں پیش کرتے ہوئے انصاف کے ساتھ صراطِ مستقیم پر قائم رہنا ہوتا ہے ،
صافی صاحب پر نواز شریف کے ہمدرد ہونے کا الزام لگا کر لوگ انہیں لفافہ صحافی کے طعنے بھی دیتے ہیں لیکن میں الزام بلا دلیل کا قائل نہیں ، یہ اسلامی اور اخلاقی دونوں نقطہ نظر سے جرم ہے ، میری نظر سے اُن کے وہ کالم بھی گزرے ہیں جن میں میاں برادران پر شدید تنقید کی گئی ہے ، وہ شستہ لکھتے ہیں ، بہترین نکات اٹھاتے ہیں اور اپنے فن میں مہارت بھی رکھتے ہیں ، لیکن بد قسمتی سے ہمارے بعض کالم نگار اور صحافی جب کسی دینی موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں تو کوئی نہ کوئی ٹھوکر کھاجاتے ہیں
صافی صاحب اپنے کالم (یوٹرن اور صراطِ مستقیم ) میں پہلے حدیث سے استدلال کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کے یوٹرنز کو ترتیب وار جھوٹ ، خیانت اور وعدہ خلافی کِہ کر منافقت کے زمرے میں لاتے ہیں، اور پھر سورہ نساء کی آیت نمبر145( إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ )
” منافق جہنم کےسب سے نچلے درجے میں ہوں گے ) کو بطور سزاء اور وعید کے تین بار پیش فرماتے ہیں جس سے ایک عام فہم انسان شدید غلط فہمی کاشکار ہوکر جھوٹ ، خیانت اوروعدہ خلافی کے تمام مرتکب لوگوں کے لئے یہی سزا بیان کرسکتاہے ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ جھوٹ ، خیانت اور وعدہ خلافی نفاق کی علامات میں سے ہیں ، کہ یہی علامات بہت ساری صحیح احادیث میں بیان کی گئیں ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : چار خصلتیں ہیں ، جس شخص میں وہ پائی جائیں گی وہ خالص منافق ہوگا ، اور جس کے اندر ان میں سےکوئی ایک خصلت ہوگی اس میں نفاق کی ایک خصلت پائی جائے گی حتی کہ اسے ترک کردے ، ( وہ خصلتیں یہ ہیں ) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے ، جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب کوئی عہد کرے تو بے وفائی کرے اور جب جھگڑا کرے تو ناحق چلے ۔
( بخاری و مسلم )
اسلام چاہتا ہے کہ اس کے ماننے والے ایسے عمدہ اخلاق و کردار کے حامل ہوں جو انہیں انسانیت کے اعلی مقام تک پہنچائے اور ایسے ہر برے اخلاق سے دور رہیں جو انہیں جانوروں کی صف میں لاکھڑا کردے ، اور اس میں بھی شک نہیں کہ حدیث میں ذکرکی گئیں مذکورہ تمام علامات عمومی طور پر ہمارے معاشرے کے بیشتر عوام اور حکمران طبقے دونوں میں پائے جاتے ہیں بلکہ میں خود بھی ان امراض سے پاک ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ فرق کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ نفاق کی دو قسمیں ہیں ، اعتقادی ، اور عملی ،
اعتقادی نفاق یہ ہے کہ ایک کافر انسان اپنے کفر کو دل ہی دل میں چھپائے رکھے اور کسی دنیاوی مصلحت کی وجہ سے زبان سے اسلام اور ایمان کا اظہار کرتا پھرے ، جبکہ عملی نفاق یہ ہے کہ دل میں تو ایمان ہے لیکن منافقوں کی خصلتیں اور عادتیں اس میں پائی جائیں ، اس دور میں اعتقادی نفاق کی پہچان صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ، کیونکہ یہ ایک خالص باطنی معاملہ ہے جس کی معرفت کا ذریعہ صرف وحی الہی تھی جونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد منقطع ہوچکی ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی بھی شخص پر اعتقادی منافق ہونے کا حکم لگانے کو علماء نے جائز قرارنہیں دیا ہے
اور جب اعتقادی منافق کی پہچان ناممکن ہے تو پھر صافی صاحب کا سورہ نساء کی آیت (إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّار) یقیناً منافق لوگ جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے ) کو عملی نفاق کے سیاق میں بطور وعید پیش کرنا بہت سنگین غلطی ہے ،
کیونکہ یہ سزا اعتقادی منافق کے لئے ہے نہ کہ عملی منافق کے لئے۔
اگر یہ خالص دینی معاملہ نہ ہوتا اور بات قرآنی آیت کے غلط مصداق کی نہ ہوتی توشاید میں اس موضوع پر لکھنے کی جسارت نہ کرتا ، کیونکہ میں لکھنے کے میدان میں سالیم صافی جیسے کالم نگاروں کا ہی خوشہ چیں ہوں ۔ اسلام ہمیں بدترین دشمن کے ساتھ بھی انصاف کے ساتھ سیدھے راستے پر قائم رہنے کاحکم دیتاہے قرآن کریم میں ارشادہے:
” اے ایمان والو! اللہ کے واسطے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جاؤ، اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں بےانصافی پر مجبور نہ کرے ، انصاف کرو کہ یہی بات تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے،(سورۃ المائدہ آیت نمبر7)
دوسری طرف سورۃ النساء آیت نمبر135 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ” اے ایمان والو ! انصاف قائم کرنے والے بنو، اللہ کی خاطر گواہی دینے والے، چاہے وہ گواہی تمہارے اپنے خلاف پڑتی ہو، یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف)
الغرض کسی سے شدید دشمنی ہو یا شدید محبت دونوں صورتوں میں صراطِ مستقیم پر قائم رِہ کر انصاف کرنے کا حکم ہے۔ لیکن افسوس کہ صافی صاحب زیرِ بحث کالم میں دوسروں کو سیدھے راستے پر قائم رہنے کی تلقین کرتے کرتے خود صراطِ مستقیم کو کھوبیٹھے ہیں ،
شاید صافی صاحب کو وزیر اعظم عمران خان سے اتنا اختلاف نہ ہو جتنا کہ مجھے ہے اور یہ اختلاف اس وقت سے ہے جب خان صاحب نے سابقہ دورِ حکومت میں اسلام آباد کے 126 دن کے دھرنےکے دوران الزام تراشی کی ، سول نافرمانی پر لوگوں کو اکسایا، دھرنے کےشرکاء نے خان صاحب کی قیادت میں پارلیمنٹ ہاؤس کا دروازہ توڑا ، لوگوں کو ہنڈی کےذریعہ رقم ارسال کرنے کی تلقین کی ، بجلی کے بِلز جلائے ، انہیں کی قیادت میں کارکنان نے پی ٹی وی پر حملہ کیا ، میڈیا کے ساتھ اور خاصکر خواتین ورکرز کے ساتھ بھرپور بدتمیزی کا مظاہرہ کیا گیا ، گیلی شلواریں، بزدل، چور، ڈیزل اورگدھے جیسے نازیبا الفاظ سیاسی مخالفین کے لیے استعمال کئے ، بات بات پر لعنت کی حتی کہ ایک بےجان چیز( پارلیمنٹ ہاوس) بھی کپتان کی لعنت سے محفوظ نہ رہی ، نہ تو یہ سیاہ باب جمہوری تاریخ میں کبھی فراموش کیا جائیگا اور نہ ہی اُن کے یہ سیاہ کرتوت تاریخ کے اوراق سے کبھی حرفِ غلط کی طرح مِٹ پائیں گے ، اگر یہ سب کچھ غلط نہ ہوتا تو آج خود وہ عوام کو انتشار ، احتجاج اور افراتفری پھیلانے سے نہ روکتے، لیکن اُس وقت شاید ملکی مفاد کرسی کی محبت میں نظروں سے اوجھل ہوچکا تھا ، اگرچہ کرسی معینہ مدت پوری ہونے کے بعد ہی ملی ۔
لیکن اس سب کچھ کے باوجود جبکہ آج وہ وزیرِ اعظم بن چکے ہیں، دشمنی میں آکر انصاف کو نہیں چھوڑنا چاہیے ، بلکہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالٰی اُن کو اچھے کاموں کی توفیق دے جو اسلام ، عوام اور ملک کے مفاد میں ہوں ، امام احمد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ” اگر مجھے معلوم پڑے کہ میری فلاں دعا قبول کی جائیگی تو میں وہ دعا وقت کے حکمراں کے لئے کروں گا۔
یوٹرن کی ہماری شریعت میں ایک درست قسم بھی ہے مثلاً اگر کوئی کسی ناجائز کام کرنے کی یا واجب کام چھوڑنے کی قسم اٹھائے تو ایسی صورت میں قسم کو پورا کرنا ناجائز ہے، بلکہ قسم توڑ کر کفارہ ادا کرنا لازم ہے ، گاڑی چلاتے ہوئے بھی آپ یوٹرن لے سکتے ہیں لیکن کم ازکم ممنوع تو نہ ہو ، ون وے روڈ پر ایک یوٹرن آپ کے لئے ہے اور ایک مخالف سمت سے آنے والے کے لئے، آپ اپنا یوٹرن چھوڑ کر مخالف سمت سے آنے والے کے یوٹرن سے یوٹرن لے لیتے ہیں ، یا گول راونڈ(چورنگی) میں راونڈ لگائے بغیر یوٹرن لے لیتے ہیں، تو ٹریفک پولیس جرمانہ کرنے میں حق بجانب ہوگی
المیہ یہ ہے کہ خان صاحب کے زیادہ تر یوٹرنز اسی قسم کے ہوتے ہیں۔
بہر حال وزیر اعظم عمران خان کے لئے یوٹرن صراطِ مستقیم ہو یا نہ ہو لیکن سلیم صافی کے لئے زیرِ بحث کالم سے کُلّی طور پر نہ سہی جُزوی طور پر یوٹرن لینا ہی صراطِ مستقیم ہوگا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).