غیریقینی صورتحال اور انسان


انسان کی زندگی میں کبھی ایسے لمحات آجاتے ہیں جب وہ غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوجاتا ہے۔ ہم سب کی زندگی میں اس طرح کے لمحات آتے ہیں۔ غیر یقینی صورتحال بھی انسانی زندگی کی خوبصورتی ہے۔ ایسی صورتحال انسان کی زندگی میں کبھی کبھار نہ آئے تو زندگی کے تجربات سے دلکشی غائب ہوناشروع ہوجاتی ہے۔ گزشتہ روز میرے دوست نے کہا یار نیوز چینلزکے حالات بدترین ہیں۔ چینلز سے ہمارے ساتھیوں کو نکالا جارہے۔ کچھ نیوز چینلزبھی بند ہورہے ہیں۔ ہم بے روزگار ہوگئے تو کیا ہوگا؟ کیسے گھر چلے گا؟ زندگی تو تکلیف دہ صورتحال کا شکار ہوجائے گی۔ طنزیہ انداز میں اس نے یہ بھی کہا کہ تمہارے پاس تو ایک سال پہلے نئی نوکری کا موقع بھی ہاتھ لگا تھا جسے تم نے ضائع کردیا۔ اب خدانخواستہ یہ نوکری بھی چلی گئی تو کیا ہوگا؟

دوست کے سوال کا جواب اس وقت میں نے غیر سنجیدہ انداز میں کچھ یوں دیا کہ نوکری کے بدلے آزادی کوئی گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ آج اس تحریر میں دوست کے سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ جب انسان غیر یقینی صورتحال کی کیفیت کا شکارہوتا ہے تو اسے دوست، احباب، ماں باپ اور قریبی افراد یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ”بی پوزیٹو“ یعنی گھبراؤ نہیں، اعتماد بحال رکھو۔ اس صورتحال سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یاد رکھیں کہ وہ اعتماد جس میں صراحت نہ ہو وہ بھی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی جیسے سامنے خوفناک دھند ہے، کچھ نظر نہیں آرہا، میں کہوں کہ مجھے اپنے اوپر اعتماد ہے، میں تو سڑک پر سفر جاری رکھوں گا۔ اس کا نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ کسی حادثے کا شکار ہوسکتا ہوں۔

اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ زندگی میں بی پوزیٹو یا بی نیگیٹو کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ جب انسان غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوتو اسے اپنے آپ پر غور و فکر کا سلسلہ بڑھادینا چاہیے۔ غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوتے ہی انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر کی دنیا کا سفر شروع کردے۔ وہ سفر جو حقیقی، سچا، دلکش اور خوبصورت ہے۔ باہر کی دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے بے نیاز ہوجانا چاہیے۔ باہر کی دنیا میں زیادہ سے زیادہ کیا ہوسکتا ہے یا بہت برا ہوگا یا بہت اچھا۔ اچھا اور برا تو ہوتا رہتا ہے اور ہوتا رہے گا۔ ہوسکتا نوکری کے چلے جانے سے انسان کوئی ایسا کام شروع کردے جو اس کی فطرت کا حصہ ہو، شاید وہ آرٹسٹ بن جائے، شاید وہ بہت بڑا فلسفی یا لکھاری ہوجائے۔ ہمیشہ غیر یقینی صورتحال ہی انسان کی تخلیقی قوتوں کی توانائی کو زندہ کرتی ہے۔

کیاہم میں سے کوئی ایسا انسان ہے جو یہ کہہ کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں جانتا ہے؟ ہم اپنے مستقبل کے گلے دس منٹ کے بارے میں بھی کوئی پیشن گوئی نہیں کرسکتے۔ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اگلے پانچ منٹ میں ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟ وہ آسٹرالوجسٹ جو دوسروں کی زندگی کے تمام احوال لمحوں میں بتا دیتا ہے، اسے خود معلوم نہیں ہوتا کہ اگلے لمحے اس کے ساتھ کیا ہوسکتا ہے؟ اس غیر یقینی صورتحال سے نکلنے کے لئے ہم دوسروں سے مشورے کرتے ہیں، مولوی، اسکالر، پیر اور فقیر کے پاس جاتے ہیں۔ لیکن کیا بدقسمتی ہے کہ اس صورتحال میں خود کو بھول جاتے ہیں۔

کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ غیر یقینی صورتحال میں کس قدر دلکشی، تھرل، سرپرائز اور سسپنس ہے؟ زندگی اگر سسپنس، تھرل اور سرپرائز سے خالی ہوجائے تو کیا اسے زندگی کہا جاسکتا ہے؟ ہم مووی تھیٹر میں جاتے ہیں، فلم دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں یہ ہوگا، ایسا نہیں تو ایسا ہوگا۔ سسپنس اور تھرل کے انتظار میں رہتے ہیں، ہمارا خیال ہوتا ہے فلم کا اختتامی سین ایسا ہوگا، مگر فلم کا آخری سین ہماری پیشن گوئی یا سوچ سے مختلف ہوتا ہے اور فلم کی بھی یہی دلکشی ہے کہ اس میں سسپسن، تھرل اور سرپرائز آتے ہیں۔ فرض کریں کہ فلم دیکھنے سے پہلے ہمیں معلوم ہوجائے کہ اس فلم کا اختتام ایسے ہوگا تو کیا وہ فلم ہم دیکھنے جائیں گے؟ ہم بوریت محسوس کریں گے۔ زندگی کے تجربات میں بھی سسپنس، تھرل اور سرپرئزز ہونے چاہیے تاکہ دلکشی برقرار رہے۔

وہ انسان جو زندگی کے تمام مقاصد کو سیٹ کر لیتے ہیں اور زندگی ان مقاصد کو ان مقاصد کے مطابق آگے بڑھاتے ہیں بنیادی طور پر وہ سسپنس، تھرل اور سرپرائزز سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ کہ ہم سسپنس کو انجوائے کرنے کی صلاحیت اور قابلیت سے محروم ہوچکے ہیں۔ فطرت غیر یقینی صورتحال پیدا کرکے ہمیں سسپنس اور سرپرائزز سے متعارف کراتی ہے۔ انسان کو زندگی کے کھیل میں فکسنگ نہیں کرنی چاہیے۔ ہم وہ میچ فکسر ہیں جو کھیل شروع ہونے سے پہلے کھیل کے اختتامی نتیجے کو فکس کرچکے ہیں۔

رسک زندگی ہے، غیر یقینی صورتحال ہی زندگی ہے۔ کیا خوبصورت بات ہے کہ انسان اس صورتحال میں مسکرا کر کہے کہ دیکھتے ہیں اب آگے کیا سرپرائزز آتے ہیں۔ زندگی کی سب سے خوبصورت اور دلکش و دلفریب ادا یہ ہے کہ اس میں کل کبھی نہیں آتا۔ زندگی میں ڈرامہ ہونا چاہیے، زندگی کے تجربات کے دوران تھرل اور سسپنس ہونا چاہیے۔ کچھ نہ کچھ ہوتے رہنا چاہیے۔ ہم انسان غیر یقینی صورتحال سے خوف زدہ اس لئے ہیں کہ ہم نے سب کچھ فکس کیا ہوا ہے۔ ہم زندگی کے میچ کے فکسر بنے ہوئے ہیں۔ ہمیں جلدی سے اختتام دیکھنا ہے کیونکہ زندگی کے تمام لمحات پر ہم نے سٹہ لگایا ہوا ہے۔
امید ہے وہ انسان یا میرے ساتھی نوکری جانے سے خوف زدہ ہیں، وہ میرے نقطہ نظر کو سمجھیں گے اور اس غیر یقینی میڈیائی صورتحال کو انجوائے کرسکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).