بائیس برسوں کی جدوجہد کا نتیجہ


کپتان کو افسروں نے بہت لمی بتی دکھا کر اس کے پیچھے ٹور رکھا ہے ۔ اخے ستائس ملکوں کے ساتھ اکاؤنٹ واپسی پیسے واپسی انفو شیئرنگ کے معاہدے ہو گئے گھنٹہ ۔ انصار عباسی کا فرمانا ہے کہ ان کی حکومت نے کوئی اک معاہدہ بھی نہیں کیا ۔ اسے کہتے ہیں افسروں کے ہاتھوں الو بننا ۔
کپتان نے فرمایا ہے کہ گیارہ ارب ڈالر پاکستانیوں کے باہر پڑے ملے ہیں ۔ اللہ رحم ہی کرے پاکستانیوں پر یہ بارلے پاکستانیوں کے اکاؤنٹ نہ ہوں جو کھینچا تانی میں کپتان کے ہاتھوں رل جائیں ۔
اب حکومت کرے کیا ۔ نوازشریف زرداری کو تو پھانسی دینا بنتی ہے ۔ اتنی مدت ہو گئی ہم نے کوئی لیڈر ٹنگا ہوا نہیں دیکھا ۔ پھر ہمارے کپتان کو اس کا شوق بھی ہے اس کے مداحوں کو تو ایسا دیکھنے کا جنون ہے ۔
یہ کام تو فوری کرنے کا ہے ۔ قانون وغیرہ کی بھی پروا نہیں کرنی چاہئے ، بابا رحمتے قنون کی ٹھیک والی تشریح کرنے کو ہر گھڑی دستیاب بیٹھے ۔
ہمارا اک پشوری صراف چین میں کاروبار کرتا تھا ۔ اسے چینی چک کے لے گئے تھے ۔ اس سے پوچھا تھا کہ تم ڈالر میں گھپلے کیوں کرتے ہو ۔ دبئی کیوں لے جاتے ہو ۔ بنک میں کیوں نہیں رکھتے ہو ۔ لوگ تمھارے ذریعے پیسے کیوں بھجواتے ہیں ۔
اس نے فرمایا کہ پرافٹ ہوتا ہے اس لیے ایسا کرتا ہوں ۔ تمھارے بنک سلو ہیں میں فاسٹ ہوں اس لیے لوگ مجھے دیتے ہیں ۔ دبئی میں کوئی پوچھتا نہیں ہے تم ایسے ہی پوچھ پوچھ کر مت مارتے رہتے ہو ۔ اس لیے وہاں رکھتا ہوں۔

ہمارے اس صراف کا کہنا ہے کہ وہ حیران ہے کہ چینیوں نے اسے کچھ کہنے کی بجائے اپنے قوانین تبدیل کیے ۔ میں مجبور ہو گیا وہ سب چھوڑنے پر جو پہلے کرتا تھا ۔

اب کپتان اس کی حکومت پر فرض یہ ہے کہ پولیس ایف آئی اے ایف سی خاصہ دار ہمراہ تین ٹینک دو کوبرا ہیلی کاپٹر بھیج کر فاٹا سے دو تین صراف چک کر منگوا لے اسلام آباد ۔ اک تو انہیں پتہ لگے کہ ان کی بزتی ان کے اپنے ملک جاری رہے گی حکومت کوئی بھی ہو ۔ پی ٹی ایم میں جان پڑے گی ۔
ان صرافوں سے بلا کر پوچھ لیں کہ پاکستان میں ڈٓالر کیسے زیادہ کرنے ہیں ۔ وزارت قنون کے دو چار افسروں نامی قسم کے بنکروں کو بٹھا کر ان صرافوں کے اقبالی بیان سنائیں ۔ ان کو اٹین شن رکھنے کو چار چار پانچ چانٹے پنجاب پولیس سے ضرور لگوا لیں تاکہ ان کے دماغ حاضر ہوں ۔ ( یہ بنکروں کو اور ماہرین قانون کو مارنے ہیں )۔
اے کے ڈی اور سٹاک ایکسچینج کے باقی بڑے بروکر ہاوسز کے مالکان کو بلا کر انہیں وزیر اعظم ہاؤس میں صدارتی پروٹوکول دیں ۔ چاق و چوبند دستے سے سلامی دلوائیں ۔ سلامی میں اگر توپ کے گولے بھی چلوا سکیں تو اور اچھا ہے ۔ سیٹھوں کا دل اچھا ہو گا ۔
ان سیٹھوں سے پوچھیں کہ انویسٹمنٹ کیسے آوے گی پاکستان میں ۔ کون کون سے قانون بدلنے ہیں ۔ یہ جو کہیں ان ساری سفارشات کو فوری تسلیم کر لیں ۔ ماہرین قانون پرانی چپیڑیں اب تک بھول چکے ہونگے انہیں تازہ ڈوز دوبارہ پنجاب پولیس سے دلوائیں تاکہ ان کی طبعیت بحال ہو اور وہ قانون بدلتے ہوئے کوئی نئی شرلی نہ فٹ کر دیں ۔
پاکستان کی انڈسٹریل گروتھ کے بیڑے غرق ہیں ۔ ایکسپورٹ ڈوبی پڑی ہے ۔ صنعت کاروں کا ترلا کرنا ضروری ہے ۔ انہیں لارے دینے بھی بہت ضروری ہیں ۔
انہیں بلائیں نہ بلائیں اک کام کرنا ضروری ہے ۔ انرجی کی قیمت دو سال کے لیے فکس کر دیں ۔ تیل گیس کی قیمتیں کیپ کر لیں ۔ یہاں اسد عمر کی پاٹی پرانی تقریر پر عمل کر لیں ۔ فرض کریں تیل کی قیمت پانچ روپئے اور ٹیکس پانچ روپئے ہے۔ تو اس کو فکس دس روپئے کر لیں ۔ جب قیمتیں بڑھیں تو ٹیکس کم کاٹیں قیمت کو دس پر ہی رہنے دیں حکومت کی کمائی کم ہو جاوے گی ۔
پر سیٹھ کو انرجی اک ہی قیمت پر ملتی رہے گی ۔ اس کے لیے دو سال کی منصوبہ بندی کرنا آسان ہو جاوے گا ۔ وہ زیادہ لمبے عرصے کی پلاننگ کر لے گا ۔ دلیری سے انویسٹمنٹ کرے گا ۔

امپورٹ بل نے ہمارے بیڑے غرق کر رکھے ہیں ۔ یہ غرق ہی رہیں گے ۔ اس میں حکومت کے پاس کرنے کو کچھ خاص نہیں ہے ۔ ماہرین قانون دو بار چپیڑیں کھا کر سدھر چکے ہونگے ۔ ان سے نئے قوانین ڈرافٹ کرا لیں ۔ پاکستان میں جو بھی امپورٹ ہو گی وہ ٹاپ کلاس آئٹم ہو گی امریکن یا یورپین سٹینڈرڈ کا مال ہو گا ۔
ماڑی چیز امپورٹ کرنے پر پابندی ۔ کار آئے تو بہترین آئے شیمپو آوے تو سب سے مہنگا آوے ۔ لوکل انڈسٹری بھی چل پڑے گی ۔ جس کے پاس پیسے ہیں اسے کوالٹی پراڈکٹ استعمال کرنے کو ملے گی ۔ ڈیوٹی کم رکھیں مہنگی چیز پر ویسے ہی زیادہ وصولی ہو جائے گی ۔ خریدے گا تو وہی جس کے پاس پیسے ہونگے ۔
یہ سب کرنے کے بعد بھی مسائل حل نہیں ہونگے ۔ انیل مسرت اور ان جیسے باقی پاکستانیوں کو اسلام آباد بلائیں ۔ ان کا ویسے استقبال کریں جیسے کبھی ہم غیرملکی صدر و وزیراعظم کا کرتے تھے ۔
ان حضرات کو ساتھ لیکر ملک ریاض صاحب کے پاس جائیں ۔ انہیں بتائیں کہ ان پر کرپشن کے کتنے الزامات ہیں ۔ انہوں نے کس کس کے پیسے دینے ہیں ۔ اب کوئی گنجائش نہیں ۔ سب کو راضی کریں ۔ سب کو ادائیگی کریں ۔
کم از کم دس نئے شہر اور تیس نئی انڈسٹریل سٹیٹ بنائیں ۔ ملک ریاض انیل مسرت اور ان جیسے دوسروں کو کہیں کہ آپ بتائیں کہاں بنانے ہیں ۔ ہم سے کیا سہولت چاہئے اور آپ کیا کریں گے ۔ کتنے وقت میں کریں گے ۔
اس سب سے ہونا پتہ نہیں کیا ہے ۔ پر جو نیستی اس حکومت پر چھائی ہوئی یہ ساری اتر جائے گی ۔ یہ بلاگ جاوید چوھدری سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے ۔ خیر سے کافی اوٹ پٹانگ محسوس ہو گا ۔
المختصر کہنا صرف اتنا ہے کہ جہاں مسئلہ ہے اس مسئلے کی جڑ سے بات تو کر کے دیکھیں ۔ اس کمبخت کے پاس مسئلے کا حل بھی تو ہو گا ۔ پانچ کروڑ گھر بنانے ہیں تو ملک ریاض سے پوچھیں وہ ہی بتا سکیں گے کہ کیسے بنیں گے۔ ایکسپورٹ گری ہوئی تو ایکسپورٹر سے پوچھیں اس سے اچھا کون بتائے گا کہ کیا کریں گے تو وہ پیسوں کی بوریاں بھر کے لے آوے گا ۔
اب تک کی حالت سے تو یہی لگتا ہے کہ کپتان کی بائیس سالوں کی محنت جو بھی تھی ۔ ہمیں اس کی صرف تین شادیوں کا ہی پتہ ہے ۔ حکومت میں آ کر چار آرڈر کیا دینے ہیں یہ کپتان نے کسی کاپی میں نہیں لکھے تھے ۔ اب سب اک دوسرے کو دیکھ رہے کہ کرنا کیا ہے ۔ کچھ کر لو اٹھتی جوانیاں ہیں حکمرانوں ۔
وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi