مثبت رپورٹنگ پر نیوز روم میٹنگ کا آنکھوں دیکھا حال


ایک طویل عرصے کے بعد رپورٹنگ سیکشن کی میٹنگ ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ ہو رہی تھی. نصف صدی کے تجربے والے بزرگ ایڈیٹر بھی بہ نفس نفیس موجود تھے۔ ربع صدی سے فیلڈ میں متحرک چیف رپورٹرشور مچاتے اور سوال اٹھاتے رپورٹروں کو بتا رہے تھے کہ اب انہوں نے منفی کی بجائے مثبت رپورٹنگ کرنی ہے۔ مایوسی کی بجائے امید پیدا کرنی ہے۔ لوگوں کو دُکھ کی بجائے خوشی دینی ہے۔ اپنے تئیں ماہر نفسیات چیف رپورٹرنے بتایا کہ اگر ہم چھ ماہ مسلسل مثبت رپورٹنگ کرتے رہے تو اس کے بعد ہر ذہن مثبت سوچے گا اور قومی سطح پر ناکامی،  مایوسی،  ناامیدی وغیرہ کا قلع قمع ہوجائے گا۔

سب صحافی جانتے ہیں کہ رپورٹنگ کی میٹنگ میں ہر رپورٹر کو اس کی بیٹ کے فالو اپ کے ساتھ ساتھ نئی اسائنمنٹ بھی دی جاتی ہے اور سب سے اہم پولیٹیکل رپورٹر سمجھے جاتے ہیں۔ پولیٹیکل رپورٹر نے بتایا کہ وزیراعظم نے گورنر ہاؤس کی دیواریں گرانے کا حکم دیا تھا تاکہ وہاں کا سبزہ باہر عوام کو نظر آ سکے اور اس کام پر پانچ کروڑ اسی لاکھ روپے خرچ آئے گا۔ پولیٹیکل رپورٹر کی ذمہ داری لگائی گئی کہ وہ اس پر فالو اپ لے کہ سبزہ دیکھنے سے نظر کو کتنا فائدہ ہوتا ہے۔ چیف رپورٹر نے ہدایت کی کہ وہ یہ دلیل بھی دے کہ کبھی کسی گھوڑے، بھینس یا بکری نے عینک نہیں لگائی کیونکہ وہ سبز چارہ کھاتی ہیں۔

اب ایک ٹیکنیکل فالو اپ تھا جس میں ہیلتھ رپورٹر نے یہ معلوم کرنا تھا کہ کیا نظر کو سکس بائی سکس رکھنے کے لئے گھاس کھانا بھی ضروری ہے یا اسے دیکھنے سے بھی کام چل سکتا ہے۔ سپورٹس رپورٹر نے بتایا کہ پاکستان،  نیوزی لینڈ سے میچ ہا رگیا ہے جس پر اسے ہدایت کی گئی کہ وہ اس خبر کو پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی کے تناظر میں فائل کرے کہ پاکستان نے میچ ہارکے نیوزی لینڈ کے شہریوں کے دل جیت لئے ہیں، نیوزی لینڈیوں کے کروڑوں دلوں کے مقابلے میں ایک میچ کی حیثیت ہی کیا ہے۔ رپورٹر نے بتایا کہ ہمارے کھلاڑی عظیم سے عظیم تر ہوتے چلے جا رہے ہیں کہ اس سے پہلے بھی ایک میچ میں وہ جیت کے بہت قریب تھے کہ انہوں نے اپنی پرفارمنس میں یوٹرن لیا اورمیچ ہار گئے، نئی لغت کے مطابق یوٹرن عظمت کی نشانی ہے چاہے لینے والا کوئی سیاستدان ہو یا کوئی کھلاڑی ہو۔

واپڈا کے رپورٹر کو شاباش دی گئی کہ اس نے ایک قومی اخبار کے صفحہ اول پر شائع ہونے والی یہ خبر رپورٹ نہیں کی جس کے مطابق شہروں میں ہر تین اور دیہات میں ہر دو گھنٹے بعد لوڈ شیڈنگ شروع کر دی گئی ہے کیونکہ اسے کسی طور بھی مثبت رپورٹنگ نہیں کہا جا سکتا۔ واپڈا کے رپورٹر بلب خان کو ہدایت کی گئی کہ وہ واپڈا والوں سے بات کر کے بتائے کہ ماضی کے مقابلے میں اس وقت شہریوں کو خالص بجلی فراہم کی جا رہی ہے جبکہ نواز دور کی بجلی میں بھی کرپشن اور ملاوٹ ہوتی تھی۔ بلب خان سے کہا گیا کہ وہ لیسکو چیف کا انٹرویو کریں جس میں وہ بتائیں کہ انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے جب ننگی تار کو چھوا تو ایسا کرنٹ پڑا جو انہیں اپنی ملازمت کے چالیس برس میں نہیں پڑا تھا۔

موسمیات کی رپورٹر بہار بیگم نے بتایا کہ مختلف علاقوں میں درجہ حرارت منفی میں چلا گیا ہے جس کی وجہ سے لاہور سمیت پورے ملک میں سردی کی لہر آ گئی ہے مگر چیف رپورٹر نے اسے یہ خبر دینے سے اس وقت تک روک دیا جب تک درجہ حرارت مثبت نہ ہوجائے۔ کامرس رپورٹر نے بتایا کہ سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی ہے جس پر اسے ڈانٹا گیا کہ وہ ادارے کی پالیسی کے خلاف خبر دے رہا ہے، اس نے وضاحت دی کہ وہ دراصل بتانا چاہ رہا ہے کہ سٹاک مارکیٹ نے اپنا نیچے جانے کا ستر سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے اور یہی موقع ہے کہ نئے سرمایہ کارسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کریں کیونکہ مختلف کمپنیوں کے شئیرز ٹکا ٹوکری ہو گئے ہیں۔ رپورٹر کو شاباش دی گئی اور ہدایت کی گئی کہ وہ آئندہ معیشت کی صورتحال کو سٹاک مارکیٹ کی بجائے ملک میں مرغیوں، انڈوں اور دیہات میں کٹوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو سامنے رکھ کے رپورٹ کرے تاکہ نئے پاکستان میں معیشت کی بہتری کے نئے انڈیکیٹر متعارف کروائے جائیں۔

اُس نے مزید بتایا کہ ڈالر مہنگا ہونے کے بعد سونے کے زیورات سے لنڈے کے کپڑوں تک ہر شے مہنگی ہو گئی ہے مگر اسے ہدایت کی گئی کہ ا س خبر کو امریکا اور یورپ کے رہنے والوں میں خوشی کی لہر دوڑ جانے کے حوالے سے فائل کرے اور بتائے کہ جب ایک گورے کو ایک ڈالر کے بدلے ایک سو چالیس پاکستانی روپے ملے تو وہ خوشی سے پاگل ہو گیا اور اس نے کہا کہ یہ کام بھی پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے ورنہ اس سے پہلے اسے ایک سو چار،  پانچ روپوں پر ہی ٹرخا دیا جاتا تھا جبکہ پاکستان میں ا یک عوامی سروے کرنے کو کہا گیا جس میں عوام نے بتانا تھا کہ غریبوں کے زیر استعمال روپیہ سستا اور امیروں کا ڈالر مہنگا ہونا عمران خان کا بڑا کارنامہ ہے۔

ایجوکیشن رپورٹر نے بتایا کہ کاغذ مہنگا ہونے سے نہ صرف تمام کتابیں اور کاپیاں مہنگی ہو گئی ہیں بلکہ مارچ میں اگلا تعلیمی سال شروع ہونے پر بہت ساری اہم درسی کتب شارٹ ہو جائیں گی، رپورٹر کو ہدایت کی کہ وہ خبر فائل کرے کہ پاکستان تیزی کے ساتھ ’ماڈرن پیپر لیس ایجوکیشن سسٹم‘ کی طرف بڑھ رہا ہے ۔

سٹی رپورٹر نے بتایا کہ شہر بھر سے کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کام آدھا کر دیا گیا ہے جس کی وجہ متعلقہ کمپنیوں کو معاوضے کی ادائیگی نہ ہونا ہے تاہم اس کی مثبیت یہ ہے کہ شہر کی صفائی پر ضائع ہونے والے بجٹ سے پچاس فیصد بچا کرہسپتالوں کو دے دیا جائے گا کہ وہاں بیماریاں بڑھنے کے باعث مریضوں کی تعداد دوگنی ہورہی ہے، اس سے نہ صرف ہسپتالوں کی رونق بڑھے گی بلکہ انہیں اضافی فنڈز بھی ملیں گے۔ سٹی رپورٹر نے مزید بتایا کہ تجاوزات کے خلاف مہم میں حکومت کی طرف سے روزگار کی متبادل جگہ فراہم نہ کئے جانے پر اب تک کم و بیش ایک لاکھ غریب دکاندار اور سٹال ہولڈرز بے روزگار ہو چکے ہیں مگر اسے کہا گیا کہ وہ مارکیٹوں کی ایسی تصویریں کھینچ کے لائے جن میں گندے سٹال ہولڈروں سے پاک،  کھلی ڈُلی مارکیٹیں بہت خوبصورت نظر آ رہی ہوں۔

کرائم رپورٹر نے بتایا کہ شہر میں فائرنگ سے بیوہ ماں کا یتیم بچہ جاں بحق ہو گیا ہے تاہم مثبت رپورٹنگ کے فارمولے کے تحت خبر فائل کی جا رہی ہے کہ بچے کی دونوں آنکھیں بچ گئی ہیں۔ رپورٹر نے خبر میں مزید مثبیت ڈالتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ یہ بچہ یتیم ہونے کے باوجود ایک بڑے پرائیویٹ سکول میں پڑھ رہا تھا اور اب اس غریب ماں کو ان تمام روپوں کی بچت ہوجائے گی جو وہ اس کی پرورش کے ساتھ ساتھ مہنگی تعلیم پرضائع کر رہی تھی۔ ریلوے کے رپورٹر نے پوچھا کہ وہ نئی چلنے والی ٹرینوں کے خالی ہونے، خسارے میں اضافے اورکرایوں میں بیس فیصد تک اضافے میں کہاں سے کتنی مُثبیت ڈالے؟

 یہی وہ موقع تھا جب بزرگ اور جہاںدیدہ ایڈیٹر صاحب نے آنکھیں کھولیں، وہ بزرگی کے باعث حالت غنودگی میں لگ رہے تھے۔ کھنکھارے اور بولے، کسی کو مثبت رپورٹنگ کی سمجھ نہیں آتی تو وہ ریکارڈ سے مارچ 1971ء سے سولہ دسمبر 1971ء کے اخبارات دیکھ لے، وہ پازیٹو رپورٹنگ کے عروج کا دور تھا، ہم آپریشن سرچ لائیٹ میں مکتی باہنی کا قلع قمع کر رہے تھے، ہمارے تجزیوں میں بنگالی عوام ہمارے حق میں دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے تھے، ہماری خبروں میں بھارتی افواج کو مسلسل ہزیمت کا سامنا تھا مگر ۔۔۔ یہاں پہنچ کے ان کی آواز ٹوٹنے لگی، پہلے آنکھیں اور پھرگلا نمکین پانی سے بھرا اور پھر نئے پاکستان کے تقاضوں سے بے بہرہ آوٹ ڈیٹڈ ایڈیٹر صاحب دھاڑیں مار مار کے رونے لگے ۔۔۔ بھانت بھانت کی بولیوں سے گونجتے رپورٹنگ سیکشن میں موت کا سناٹا پھیل گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).