کیا ’جنرل نالج‘ کو علم سمجھنا چاہیے؟ 


یہ جنرل نالج کیا ہوتا ہے، اس کے متعلق بھی پیپر سیٹ کرنے والوں کو عجیب سی غلط فہمی ہے۔  گزشتہ تین سے چار سال کے دوران عجیب و غریب مبنی مضحکہ خیز امتحان دیکھنے کو ملتے ہیں۔  حیرت ہوتی ہے کہ اس ملازمت کے لیے اس سوال سے کیا جانچا گیا ہے؟ مثلاً اگر پنجاب پولیس کے انسپکٹر سے پوچھا جائے کہ میرا جی کس شہر میں مدفون ہیں؟ ( 2016 )۔ اے ایس آئی سے پوچھا جائے کہ کلی منجارو پہاڑ کس ملک میں واقع ہیں؟ ( 2017 )۔

جج بننے کے امیدوار سے دریافت کیا جائے کہ دنیا میں سب سے زیادہ بائیسکل فروخت کرنے والا ملک کو ن سا ہے؟ ( 2003 )۔ ایکسائز ایند ٹیکسیشن انسپکٹر سے سوال کیا جائے کہ ”سوہنی دھرتی اللہ آباد تجھے“ کس نے لکھا تھا؟ ( 2016 )۔ فوڈ سیفٹی انسپکٹر سے بتانے کا کہا جائے کہ Myopia کس قسم کے لینز سے درست ہو سکتا ہے؟ ( 2016 )۔ ڈپٹی ٹریژری آفیسر کے سامنے سوال رکھا جائے کہ کروشیا کا دارالحکومت کون سا ہے؟ ( 2012 )۔

کمپیوٹر سائنس کے لیکچرر بننے والے سے استفسار کیا جائے کہ امیر خسرو کس شہر میں مدفون ہیں؟ ( 2017 )۔ تاریخ کے مضمون میں منتخب ہونے والے اسسٹنٹ پروفیسر سے کرکٹ بیٹ کی لمبائی معلوم کی جائے؟ ( 2017 )۔ اردو کے لیکچرر سے پوچھا جائے کہ ’منامہ‘ کس ملک کا دارالحکومت ہے؟ ( 2017 ) تو ان سب سوالات کی کیا توجیہ بنتی ہے؟ بھلا امیدواروں کی کون سی جانچ کی گئی ہے۔  اور اگر کسی امیدوار کو یہ جواب آتے بھی ہیں تو اِس ذمہ داری کے لیے اُس کی اہلیت کیسے ثابت ہو جائے گی۔ آخر کون سی ذہنی صلاحیت کا ان سوالات سے پتا چلتا ہے۔  سوائے اس کے کہ اُس آدمی نے ایک فضول چیز کو صرف اس ملازمت کے حصول کے لیے رٹنے پر کتنا وقت ضائع کیا ہے۔  اگر اس دوران وہ اپنے مضمون یا اپنے میدان کو وقت دیتا تو بہت آگے بڑھ سکتا تھا۔

جنرل نالج کی اگر اردو کی جائے تو شاید ”عام سا علم“ بنے گی۔ اور یقینا یہ ایک عام سا علم ہے جس کی کسی بھی خاص میدان یاخاص طرح کی ملازمت کے لیے ضرورت نہیں ہوتی۔ کانگو کے خارجہ وزیر کا نام کیا ہے۔ ؟ کمبوڈیا کا قومی درخت کیا ہے؟ بھوٹان کا قومی کھیل کیا ہے؟ گولف کی گیند کا وزن کتنا ہوتا ہے؟ بارباڈوس کی آبادی کتنی ہے؟ اسٹونیا کا دارالحکومت کون سا ہے؟ ان سب باتوں کو جاننے کی کیا اہمیت ہے؟ اگر یہ ساری باتیں کسی امیدوار کو آتی بھی ہیں تو وہ اس ملازمت کے لیے اہل کیسے ثابت ہوگیا؟

آخر کون یہ طے کرتا ہے کہ امتحان کا یہ طریقہ کار ہو؟ ملازمت چاہے جو بھی دینی ہے، اس سے امتحان جنرل نالج کا ہی ہو گا؟ آخر ہماری یہ غلط فہمی کب ہو گی کہ جنرل نالج علم نہیں ہوتا، نہ اس سے کسی انسان کی ذہنی صلاحیت جانی جا سکتی ہے۔  یہ تو محض رٹا ہے اور جس نے زیادہ رٹ لیا، وہ اس میں آگے بڑھ گیا۔ اس طرح کے امتحان سے تو وہ طلباء ہمیشہ پیچھے رہ جاتے ہیں جن کے پاس اپنے مضمون یا میدان کا علم بہت زیادہ ہوتا ہے، جو خاص لوگ ہوتے ہیں۔  کیا ہم اپنے اداروں کے لیے ان خاص لوگوں کو رکھنا چاہتے ہیں یا صرف انہی کو جنہیں عام سا علم آتا ہے؟ کیا ہم خاص لوگوں کی ذہنی صلاحیت جانچنے کے لیے کوئی ایسا امتحانی نظام نہیں بنا سکتے جس میں صرف وہ لوگ آگے آئیں جن کے پاس اپنے میدان کا علم زیادہ ہے۔

کہا جاتا ہے جدید زمانے کا تعلیمی نظام مچھلی کے بچے کو درخت پر چڑھنا سکھانے کا نام ہے اور ملازمت لینے کے لیے اڑنے کا امتحان لیا جاتا ہے۔  کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ مچھلی کے بچے سے تیرنے کا امتحان ہی لیا جائے؟ کب تک ہمیں یہ غلط فہمی رہے گی کہ جنرل نالج علم کی کوئی قسم ہے؟ کب تک ہم یادداشت کے امتحان کو ہی اہلیت جانچنے کا معیار سمجھتے رہے ں گے؟ کیا ہمارے ماہرین کچھ ایسا امتحان نہیں تیار کر سکتے جو طلبا کے علم کو جانچنے کا درست معیار ہو؟ کیا ہمارے ماہرین ایسے سوالات نہیں تیار کر سکتے جو یادداشت کی بجائے تجزیاتی صلاحیت کو جانچتے ہوں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2