گریٹ افغان گیم پارٹ ٹو!


وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سنیچر پندرہ دسمبر کو پہلی بار کابل جا رہے ہیں تاکہ صدر ٹرمپ نے افغانستان میں قیامِ امن کے لیے فعال کردار ادا کرنے کی جو فرمائش کی ہے اسے آگے بڑھایا جا سکے۔ پچھلے ایک ماہ کے دوران افغانستان میں ایک جانب تو طالبان اور امریکا نے ایک دوسرے کے خلاف فوجی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔

دوسری جانب سفارتی سرگرمیوں میں بھی غیر معمولی تیزی آ گئی ہے۔ امریکی خصوصی ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد دوہا میں طالبان سے بات چیت کے دور کے بعد افغان صدر اشرف غنی کو اعتماد میں لے کر اسلام آباد میں اعلیٰ پاکستانی قیادت سے ملے ہیں۔

دوسری جانب ماسکو میں طالبان نے ایک علاقائی کانفرنس میں پہلی بار کھلی شرکت کی جب کہ کابل حکومت نے اس کانفرنس میں کوئی باضابطہ سرکاری وفد بھیجنے کے بجائے اعلیٰ افغان امن کونسل کے نمایندوں کو غیر رسمی شرکت کے نام پر بھیجا۔
چین جسے روڈ اینڈ بیلٹ اور سی پیک سرمایہ کاری کی خاطر پاکستان کی مغربی سرحد اور وسطی ایشیا سے ملنے والی افغانستان کی شمالی سرحد پر امن درکار ہے۔ وہ بھی طالبان، کابل حکومت اور اسلام آباد سے رابطے میں ہے۔ بھارت بھی اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے پاؤں ٹکانے کے لیے امریکی رضامندی سے کابل حکومت کے ساتھ موثر رابطے استوار کیے ہوئے ہے اور اس بابت امریکا پاک بھارت افغان مفادات کے ترازو کو متوازن رکھنے کی اپنی سی کوششوں میں بھی مصروف ہیں۔

اگر واشنگٹن میں بیٹھ کر افغان دلدل کو دیکھا جائے تو محکمہ خارجہ کا پلڑا افغان کمبل سے مرحلہ وار جان چھڑانے کے حق میں معلوم ہوتا ہے۔ مگر ٹرمپ کا وائٹ ہاؤس سابق و حاضر امریکی فوجی جنرلوں کی رائے کو دفترِ خارجہ کے تجزیے سے زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔ اسی لیے ٹرمپ انتظامیہ ایک جانب بظاہر افغانوں کے درمیان بات چیت اور دوسری جانب طالبان سے براہِ راست رابطوں میں مصروف تو ہے مگر وہ افغانستان میں امن بھی اپنی مرضی کا چاہتی ہے۔

اچھی خبر یہ ہے کہ حالات کا جبر ٹرمپ انتظامیہ کو رفتہ رفتہ بادلِ نخواستہ قائل کر رہا ہے کہ پاکستان کو ساتھ لیے بغیر کوئی بھی افغان حل پائیدار نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا عسکری ڈو مور کی پالیسی رفتہ رفتہ پاکستان سے سفارتی ڈو مور کی فرمائش کی جانب شفٹ ہو رہی ہے۔ اس تناظر میں واشنگٹن پوسٹ کو وزیرِ اعظم عمران خان کا انٹرویو اور سینیٹ کی مسلح افواج کمیٹی کے روبرو امریکی سینٹرل کمانڈ کے نامزد سربراہ لیفٹنٹ جنرل کینتھ میکنزی کے بیان کو جوڑنا چاہوں گا۔

عمران خان نے واشنگٹن پوسٹ کے انٹرویو میں سول و عسکری قیادت کے اس تازہ تکراری موقف کو دہرایا کہ پاکستان آیندہ کسی اور کی جنگ نہیں لڑے گا۔ پاکستان امریکا سے ایسا تعلق نہیں رکھنا چاہتا گویا ایک کرائے کے جنگجو کو پیسے دے کر لڑا دیا جائے بلکہ وہ چین کی طرح امریکا سے بھی برابری کے تجارتی رشتے استوار کرنا چاہتا ہے ( یہ بات بھی قابلِ بحث ہے کہ وہ کون کون سی طاقتیں ہیں جن کے ساتھ پاکستان کے عملاً برابری کی سطح پر تعلقات ہیں ) ۔

امریکی سینٹرل کمانڈ کے نامزد سربراہ جنرل میکنزی نے سینیٹ کی مسلح افواج کمیٹی کے سامنے کہا کہ افغان طالبان کی تعداد ساٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے اور افغانستان میں امریکی ناٹو افواج کی تعداد سولہ ہزار ہے۔ افغان فوج کو لڑائی میں جس تناسب سے بھاری جانی نقصان ہو رہا ہے وہ طویل المعیاد سطح پر ناقابل ِ برداشت ہے۔ لہٰذا امن کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈنا ہی پڑے گا۔ بقول جنرل میکنزی پاکستان جانتا ہے کہ اس کے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ مگر پاکستان کا تعاون حاصل کرنے کے لیے امریکا کو کوئی ”پرکشش پیش کش“ کرنا پڑے گی۔

یعنی پاکستان امریکا سے مستقبل کے تعلقات کے تناظر میں چینی کیمپ میں جانے کے نتیجے میں زیادہ پراعتماد ہونے کے سبب امریکا سے ماضی کے اناڑی پن کے برعکس بہتر سودے بازی کا خواہاں ہے۔ گویا اب محض سابقہ ادوار کی طرح ”مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے“ سے کام نہیں چلے گا بلکہ افغان حل کی قیمت میں پاک بھارت تعلقات میں پاکستانی علاقائی مفادات کا بھی کسی حد تک ازالہ کرنا ہوگا۔

لیکن کیا واقعی امریکا افغانستان سے جان چھڑانا چاہتا ہے؟ اس ناچیز کی رائے میں ایسا مستقبلِ قریب میں نظر نہیں آ رہا۔ اس وقت وسطی و جنوبی ایشیا میں افغانستان واحد ملک ہے جہاں واضح امریکی فوجی موجودگی ہے۔ اگر امریکا اس فوجی موجودگی کو ختم کر دیتا ہے تو پھر سوائے خلیج کے اس پورے خطے میں کوئی موثر امریکی اڈہ نظر نہیں آ رہا۔

افغانستان کی جغرافیائی لوکیشن کچھ ایسی ہے کہ اگر اس ملک کو ایک امریکی طیارہ بردار جہاز تصور کر لیا جائے تو اس کے ریڈار پر بیک وقت روس، چین، پاکستان اور ایران کو دیکھا جا سکتا ہے۔ چین اور روس کی سافٹ بیلی ( پیٹ کا نرم حصہ ) ہے اور ایران جیسے ملک کو مغرب میں خلیج اور مشرق میں افغانستان کے ذریعے امریکی دباؤ میں رکھنے کے لیے افغانستان ایک مثالی لوکیشن ہے۔ چنانچہ افغان فوج آگے چل کے بھی امریکا کے علاقائی مفادات کا چارہ بننے پر آمادہ رہے اور امریکا اور طالبان کے درمیان بطور عسکری بفر استعمال ہوتی رہے تو امریکا اپنے قابلِ برداشت جانی نقصان کی قیمت پر مستقبلِ قریب میں کبھی بھی افغانستان سے مکمل ہاتھ دھو کر روس، چین اور ان کے علاقائی اتحادیوں کو یکطرفہ واک اوور دینے کی حماقت نہیں کرے گا۔ اس بابت حال ہی میں امریکی مسلح افواج کے سب سے سینئر جنرل اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفرڈ نے اخبار واشنگٹن پوسٹ کو جو انٹرویو دیا اس پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔

جنرل ڈنفرڈ فرماتے ہیں کہ امریکا کو افغانستان سے مکمل انخلا کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے۔ اس کا مطلب افغانستان میں ایک بار پھر دہشت گردوں کو پاؤں جمانے کا بھرپور موقع دینا اور امریکا کے خلاف ایک اور نائن الیون کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کی راہ ہموار کرنے جیسا ہوگا۔ افغانستان میں امریکی فوجی موجودگی دہشت گردوں کو تتر بتر رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اس وقت بھی افغانستان کے جنوبی صوبوں میں لگ بھگ بیس خطرناک گروپ فعال ہیں۔

بقول جنرل ڈنفرڈ افغانستان میں متحرک گروہوں بالخصوص طالبان کو امن کی ضرورت کا قائل کرنے کے لیے مسلسل فوجی، سماجی و سفارتی دباؤ برقرار رکھنا ضروری ہے۔ تاکہ جنوبی ایشیا میں امریکا کے مستقل اسٹرٹیجک، اقتصادی و سفارتی مفادات کو محفوظ کیا جا سکے۔ ویسے بھی بقول جنرل ڈنفرڈ ناٹو اور امریکا کم از کم دو ہزار چوبیس تک افغان سیکیورٹی فورسز کو ایک فعال قوت بنانے کے لیے ضروری حمایت اور وسائل مہیا کرنے کے وعدے پر کاربند ہیں۔

جنرل ڈنفرڈ کا اندازہ ہے کہ جبوتی اور پاکستان میں چینی بحری موجودگی علاقے میں امریکا کی عسکری بالا دستی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ چینی صدر ژی پنگ گزشتہ برس واضح کر چکے ہیں کہ وہ ایک ایسی عالمی قوت بننا چاہتے ہیں جس کی دنیا کے کسی بھی کونے بالخصوص چینی دلچسپی کے علاقوں تک بروقت اسٹرٹیجک رسائی ہو سکے۔

جنرل ڈنفورڈ کے بھاشن کو اگر میں ایک سطر میں سمونا چاہوں تو وہ یہ ہے کہ امریکا افغانستان میں ایسا امن چاہتا ہے جس سے آنے والے وقت میں اس کی علاقائی اسٹرٹیجک موجودگی متاثر نہ ہو۔ اس کا مختصر اور آسان مطلب ہے ”گریٹ گیم پارٹ ٹو۔ “
بشکریہ ایکسپریس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).