ساحلی ڈھابے تجاوزات نہیں عام شہریوں کے لیے تفریح کی جگہ ہیں


کراچی شہر مصروف ترین شہر جہاں سگے بہن بھائیوں کو ملے ہوئے مہینے ہوجاتے ہیں، ایک تو فاصلے بہت، ٹریفک کے مسائل پھر مصروفیت، کہیں گھومنے پھرنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ صبح سویرے گھر سے نکلنا رات گئے گھر پہنچنا ہفتے میں چھ دن اور کہیں پانچ دن یہی روٹین ہے، ایسے میں پورے ہفتے کے بعد کسی کو ایک دن، کسی کو دو دن تفریح اور گھر کے کام نمٹانے کے ملتے ہیں، دوست احباب سے ملنے کے بھی یہی دن ہیں۔ چھٹی کے دن گھر کا ہفتہ بھر کا راشن سبزی، چھوٹے موٹے گھریلو کام کرتے کرتے شام ہوجاتی ہے، بچوں کو لے کر گھومنے نکلتے ہیں تو ساحل سمندر سے زیادہ مناسب جگہ سمجھ میں نہیں آتی، کہیں پلے لینڈ ہیں جہاں بچے کھیل لیتے ہیں، ساحل کنارے چائے کے ڈھابے ایک بہت بڑی نعمت کی صورت نظر آتے ہیں، کم خرچ بالا نشین، چائے پراٹھا لکڑی کے کیبن میں بیٹھ کر کھانا اور گھر واپس آکر لمبی تان کر سونا پھر نئے ہفتے کے کام کے لیے تیارہو جانا، یا پھر کسی تقریب یا رشتے دار کے ہاں ویک اینڈ گزارنا، بچوں کے امتحان ہوں تو یہ بھی ممکن نہیں ہوتا یہ ہے کراچی کے اوسط گھرانوں کی سادہ سی مصروف زندگی۔

ایسے ہی ایک دن فیملی کے ساتھ ساحل سمندر پر جانے کا اتفاق ہوا، ساحل پر غروب آفتاب کے بعد چائے کی طلب پر ساحل پر بنے چائے خانے کا رخ کیا، چھوٹے چھوٹے لکڑی کے کیبن ان میں سرخ غالیچے اور گاؤ تکیے لگے تھے، اس کے علاوہ کرسیاں بھی تھی، آرام سے بیٹھ کر چائے، پراٹھا کھایا، چائے کی بھی قسمیں، مزا ہی آگیا ساحل کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اور گرما گرم چائے، برابر والے کیبن میں پنجاب سے آئی ہوئی فیملی بھی مزے لے کر چائے نوش فرمارہی تھی اور ساتھ ساتھ کراچی والوں پہ رشک بھی کہ کتنے لکی ہیں چائے شائے کا مزا ساحل کنارے لیتے ہیں۔

ہم نے چائے سرو کرنے والے لڑکے سے پوچھا کب تک کھلے رہتے ہو کہنے لگا صبح چھ تک لوگ ناشتہ کرنے آتے ہیں، پوری رات فیملیز بھی آتی ہیں اور لڑکے وغیرہ بھی، صبح ناشتے پہ بہت رش ہوتا ہے اور ویسے بھی کراچی روشنیوں کا شہر ہے تو راتیں جاگتیں ہیں۔ ہم نے شکر ادا کیا کہ خدا خدا کرکے رونقیں لوٹ آئیں کراچی کی، حکام بالا کی حمکت عملی سے لیکن یہ تجاوزات کا خاتمہ ایک بڑی لہر کی طرح سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے کر ختم کردینا چاہتا ہے، یہ درست ہے تجاوزات بنانا غلط ہے اور اس سے مختلف مسائل جنم لے رہے تھے، جن تجاوزات کو بننے میں پچاس ساٹھ سال لگے انھیں مشینری کے ذریعے حرف غلط کی طرح مٹا دینا ایسا ہی ہے جیسے کسی جگہ زلزلے کے بعد کے آثار۔

اب شہر میں جس طرف جائیں ننگی بوچی دیواریں، بد رنگ، جگہیں، وہ بل بورڈز، وہ روشنیوں کی جگمگ جگمگ سب ختم، ایک ویرانی سی ویرانی ہے جسے دیکھ کر کلیجہ منھ کو آتا ہے۔ اب ان ساحلی ہوٹلوں اور چائے ڈھابے زد پہ ہیں یہ تو کوئی تجاوزات نہیں، نہ ہی نقصان دہ ہیں بلکہ غریب کی تفریح ہے ظاہر ہے وہ ساحل پر بنے میکڈونلڈ اور کے ایف سی نہیں جاسکتا تو اپنا شوق ان ڈھابوں پر بیٹھ کر پورا کر لیتا تھا اب ان کو بھی ہٹانے کی بات کی جارہی ہے جو سراسر بے وقوفی ہوگی کیونکہ یہ تو تفریح گاہ کا حصہ بن چکے ہیں، ارباب اختیار کو چاہیے ان پر ٹیکس لگادے لیکن مسمار نہ کرے کیونکہ حکومت نے تو ایسی کوئی جگہ نہیں بنائیں جہاں ایک متوسط گھرانہ تفریح کی غرض سے جاسکے، ساحلِ سمندر پر تو ایسی کوئی جگہہ ہی نہیں جو کے ایم سی نے بنائی ہو، لوگوں نے پرائیویٹ طور پر اس طرح کی کھانے پینے کی جگہیں کھولیں ہیں تو انھیں ختم نہ کریں ریگولرائز کردیں۔ اگر یہ سب نہ کیا تو ساحل کی رونق بھی ختم ہوجائے گی اور پھر سے یہاں غنڈہ گردی اور بدمعاشی فروغ پائے گی اور فیملیز ساحل کی تفریح سے بھی محروم ہوجائیں گی۔

جس جس جگہ تجاوزات کا خاتمہ کیا گیا ہے ان جگہوں پر صفائی اور ستھرائی کا کام کیا جائے، رنگ وروغن کا کام گورنمنٹ کروائے تاکہ یہ نحوست ختم ہو جو کراچی کے کوچہ بازار پہ طاری ہے۔ اس کے علاوہ تجاوزات کے لیے قانون بنایا جائے کہ اسے قائم کرنے والے اور اس کی اجازت دینے والوں کو بھی خطاور قرار دے کر سزا دی جاسکے۔ کراچی کی آبادی پر بھی کنٹرول کیا جائے، اور نقل مکانی کرنے والوں کا بھی حساب کتاب رکھا جائے، کراچی کے قریب ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی جائے تاکہ کراچی کو پھیلنے سے روکا جائے اور نئے شہر بسانا تو ویسے بھی فرمانِ نبی صلی علیہ و آلہ وسلم ہے تو کیوں نہ سنت پہ عمل کرکے نیک عمل کی شروعات کی جائے۔

کراچی کی رونق بحال کرنے میں تفریح گاہوں کی تعمیر اور پارکوں کی بحالی بھی ضروری ہے، صت مند معاشرے میں تفریح کی اہمیت بہت ضروری ہے، کراچی کے مزاج کی تفریح گاہ چائے کے ڈھابے اور کباب کی دکانیں نہ بند کی جائیں بلکہ کھلی اور پرفضا جگہوں پر انھین کھولنے پر حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں اور سستی تفریح بھی مہیا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).