شعر، بڑا شعر، شاعر اور نقاد


عرصہ دراز سے سنتے آئے تھے کہ نقد اگر کھرے کھوٹے کی پہچان کا نام ہے تو تنقید کو ہی مکھی کے کام سے بھی تشبیہ دی گئی ہے کہ وہ جسم پر بیٹھنے کے لئے ہمیشہ گندی جگہ کا انتخاب کرتی ہے مگر حالی، شبلی اور حسن عسکری جیسے ناقدین نے نہ صرف تنقیدی روایت کو بدلا بلکہ سلیم احمد جیسے نابغے نے اس میں تصوف کی آمیزش سے ایک لطیف جذبہ پیدا کیا لیکن عصر حاضر کے جدید ذہن کا کیا کیا جائے، وہ تو ادب کو بھی چونکانے والی شئے سمجھ بیٹھا ہے لہذا ایک معاصر و موقر انگریزی روزنامے نے شعر، بڑا شعر اور شاعر کے معنوی موضوع اور جون کی شاعری پر جو مکالمہ کیا، اس کے شرکاء کی سخت دلی نے آج تک زندہ شاعر جون کو بے چین کر رکھا ہے۔

اس بات کا جائزہ لینا چنداں مشکل نہیں کہ اردو کی تنقیدی روایت تبصروں سے شروع ہوتی ہے اور مقدمہ شعر و شاعری لکھتے وقت حالی کے ذہن میں تنقیدی تصورات یقینا مغرب سے مستعار لئے ہوئے موجود تھے جن کی بنا پر اردو غزل کو سنڈاس سے بد تر قرار دیا گیا، مگر دیکھ لیتے ہیں کہ حالی نے بڑا شعر کس کو مانا اور اس کی توجیہ کیا پیش کی، حالی نے عربی ادبیات کے حوالے دیتے ہوئے لکھا کہ

بڑا شعر وہی ہے جو اتنا سادہ ہو کہ کوئی بھی اس کو سن کر کہنے کی تمنا کرے مگر وہ کوشش کے باوجود کہہ نہ سکے اور یہ کشمکش ہی بڑی شاعری کی پہچان ہوتی ہے۔

اب اگر ذکر ہو، مذاکرے میں شریک ایک سماجی نقاد کا کہ جن کا کارنامہ تہذیبوں کے تصادم کی اصطلاح کو مشرقی دنیا میں رائج کرنا ہے، وہ بھی اس مذاکرے میں اس بات پر سر ہلاتے نظر آئے کہ جون کے پاس بڑا شعر موجود نہیں ہے اور جن صاحب نے یہ چونکانے والی بات کی، ان کے متعلق یہی کہا جا سکتا ہے کہ

مکے گیا، مدینے گیا، کربلا گیا
جیسا گیا تھا ویسا ہی چل پھر کے آگیا

حضور کے تبحر علمی پر قربان جانے کو جی چاہتا ہے، اردو کا شعر سمجھاتے وقت عربی فارسی کے طومار باندھ دیتے ہیں تاکہ یار لوگوں کو مزید موقع مل جائے یہ کہنے کا کہ اردو شاعری میں اگر گل و بلبل کا ذکر بھی ہوتا ہے تو اس کے ڈانڈے ایران و توران سے جاملتے ہیں، درویش کو شعر کی تشریح پر اعتراض نہیں، مسئلہ یہ درپیش ہے کہ اگر جون کی شعری روایت کا انکار وہ لوگ کریں گے کہ جو زندگی بھر جون کی معاشرتی مخالفت کی سیڑھی کو استعمال کرتے رہے تو ہمارا معصوم قاری کہاں جائے گا؟

مذاکرے کے تیسرے شریک کی علمی قابلیت کا ایک زمانہ معترف ہے، نفسیاتی مسائل حل کرنے میں ید طولی رکھتے ہیں، شعری روایت کے امین بھی ہیں اور ایک علمی و ادبی جریدہ ان کے زیر سایہ پرورش پا رہا ہے، ان کی رائے بھی مختلف نہ تھی اور یوں ثابت ہوا کہ جون کے پاس بڑا شعر موجود نہیں لیکن نہ ہی شعر کی تعریف متعین ہوئی، نہ ہی بڑا اور برا شعر کیا ہوتا ہے یہ سمجھایا گیا اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ نقاد کا کام کس طرح سے شعر کو ڈھونڈنا ہوتا ہے تاکہ قاری تک گمشدہ معانی پہنچائے جا سکیں۔

غالب کے تنقیدی شعور کی اگر بات کی جائے تو یہ کہا جاتا ہے کہ غالب کا ذہن رسا نالے کو آہ سمجھتا تھا لیکن یہ شعر جو ناقدین نے زبردستی دیوان میں شامل کیا اسے غالب شامل کرنے سے انکاری تھے

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

اس شعر میں پا پایا نامی الفاظ کا تنافر بھی اسے بڑا شعر بننے سے نہ روک سکا مگر ہمارے سماجی، ادبی اور نفسیاتی ناقد جون کے تنقیدی شور کو اتنا درجہ دینے کے بھی روادار نہیں۔ حسن عسکری مرحوم نے کہا تھا کہ اگر ایک ہی جملہ مضمون میں کسی شاعر کے محاسن و معائب گنوائے جائیں تو نویں جماعت کے سے مضمون کا مزہ آنے لگتا ہے مثلا سائنس کے فوائد و نقصانات وغیرہ وغیرہ لہذا ہم یہ کوشش کریں گے کہ جون کی شعری روایت کو چھیڑے بغیر دیگ کے چند دانے پیش کر دیے جائیں تا کہ شعر، بڑے شعر اور ناقد کے رشتے کو واضح کیا جاسکے۔

میر اگر یاسیت کے امام کہلاتے ہیں تو ناصر کاظمی کی روایت میں ہجرت کا دکھ چھپا ہے، امروہے کے جملہ احباب یہ جانتے ہیں کہ امروہے میں پوری دنیا کو باہر کا سمجھا جاتا ہے مگر جون نے پاکستان آنے کے بعد اپنی داخلی اور خارجی کشمکش کو اپنے شاعرانہ مزاج کا حصہ بنا لیا

اب جو ڈر ہے مجھے تو اس کا ہے
اندر آجائیں گے وہ اندر سے
(شاید)

سماجی ناہمواری کا مرقع دیکھنا ہو تو نظیر اکبر آبادی کی نظمیں دیکھی جاتی ہیں لیکن جون کے ساتھ اس ضمن میں بھی زیادتی ہوئی، ذرا احساس اور افلاس کا مرکب اس شعر میں ملا حظہ ہو

سب خدا کے وکیل ہیں لیکن
کوئی آدمی کا وکیل نہیں
(شاید)

جون ایلیا کو اگر ناقدریی عالم کا گلہ تھا تو کچھ کم نہ تھا، جابجا ایسے مناظر پیش کر گئے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی بھی عالم برزخ کے کسی کیمرے سے دیکھ کر کہہ رہے ہوں گے، کیوں جانی کیسی رہی؟

سب میرے بغیر مطمئن ہیں
میں سب کے بغیر جی رہا ہوں
(یعنی)

اشتہار کاری کے اس دور میں جو بات اپنی جانب توجہ مبذول کروالے، مارکیٹ اکانومی اسی کے پیچھے چل پڑتی ہے لیکن جون ایلیا کی شاعری نہ ہی کرختگی کو لطیف بناتی ہے اور نہ ہی سہل ممتنع کا ذکر کرتی ہے بلکہ وہ تو سماجی ناہمواری کی دوڑ میں لگے آدمی کا نوحہ ہے کہ جس کے متعلق فلپ سڈنی نے کہا تھا

The poet is superior both to the philosopher and the historian۔ Methinks I deserve to be pounded for straying from poetry to oratory۔

جون کو محض اس بات پر شاعر یا بڑا شاعر نہ ماننا کہ ان کے پاس کام کے اشعار یا بڑے اشعار موجود نہیں ایک سنگین مسئلہ ہے، اس کلئے کی روسے ہر اس شاعر کو بڑے شعراء کی فہرست سے خارج کرنا ہوگا کہ جن کے پاس بڑے اشعار موجود تھے مگر زمانے کو دیر سے نظر آئے۔ داغ کے شاگرد اقبال کا شعری سرمایہ ہم عصر ناقدین کی نظر میں اسرار خودی کے بعد کیوں آیا؟ کیوں غالب کے طرفدار سب نوجوان تھے اور مخالف ثقہ بند زبان دان؟ نظیر کی عظمت ترقی پسندوں کو ہی کیوں نظر آئی؟

اس امر میں احتیاط کو لازم رکھتے ہوئے یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا شاعری حق بحقدار رسید کے گمان سے آگے بڑھ گئی ہے یا نہیں وگر نہ کیٹس کا یہ بیان درست معلوم ہو گا کہ

Poet is the most unpoetical thing in the world۔

٭٭٭    ٭٭٭

مصنف ایک سرکاری جامعہ سے بحیثیت جز وقتی استاد ادب اردو منسلک ہیں۔ شعبہ ادو سے ہی طلائی تمغہ بھی حاصل کرچکے ہیں جبکہ ایم فل کا مقالہ لکھنے میں مصروف عمل ہیں۔ سماجی اور سیاسی حوالے سے شہر کراچی کی ہر تقریب میں شرکت کرنا مکالمے کے لئے لازم سمجھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).