امریکا اور اس کی سیاہ فہرست


پورا ملک ابھی اس خبر کی خوشی سے سنبھلا ہی نہ تھا کہ ”امریکا، افغانستان میں امن کے قیام کے لئے پاکستان کی مدد چاہتا ہے“، اس کے صرف ایک ہفتے بعد ہی ایک دوسری خبر نے دھماکا کر ڈالا۔ یہ خبر بھی امریکا سے ملی۔ خبر کیا تھی کہ امریکا کو پاکستان میں اقلیتوں کو مذہبی آزادی نہ ہونے پر تشویش ہے اور پاکستان کو سیاہ فہرست یعنی بلیک لسٹ میں ڈالا جاتا ہے۔ اب ہر طرف ہر چینل پر اس خبر پر بات ہو رہی ہے کہ امریکا دو رخی پالیسی اپنا رہا ہے۔ پہلے تو مجھے کوئی یہ سمجھا دے کہ امریکا نے کب پاکستان کے ساتھ دُہری پالیسی نہیں رکھی، اور کب کب پاکستان کو بار بار اہم دوست ملک کا ڈھول پیٹ کر ہم سے منہ نہیں پھیرا؟

ایوب خان کی آمریت کے خاتمے تک دونوں ملکوں نے خوب ساتھ نبھایا۔ اور محبت کی یہ پینگیں اتنی مضبوط تھیں کہ پاکستان میں امریکی نائب صدر جانسن، ساٹھ کی دہائی کے شروع میں جب پاکستان کے دورے پر کراچی پہنچے تو شاہراہ فیصل جو اس وقت ڈرگ روڈ کہلاتا تھا پر صدر جانسن کی نظر ایک اونٹ گاڑی والی بشیر ساربان جو سڑک کنارے اپنی اونٹ گاڑی کے ساتھ کاروان کے گذر جانے کا انتظار کر رہا تھا، پر پڑی تو وہ رک گئے اور بشیر کو نہ صرف ملے بلکہ انہیں امریکا بلایا اور وہاں اپنے گھر مہمان رکھا۔

ثابت یہ کرنا تھا کہ امریکا، پاکستان کے حکمرانوں کے نہیں، پاکستانی عوام کی دوست ہیں۔ یہ محبت کی پینگیں اس لئے تھیں، کہ امریکا کو پاکستان میں اپنے اڈوں کی ضرورت تھی، جو انہیں یہاں ملے۔ اور کون نہیں جانتا کہ بڈ بیر پشاور کا اڈا ساٹھ کی دہائی میں روس کی جاسوسی کی لئے دیا گیا تھا اور روسیوں نے ایک جاسوس طیارہ جسے یو ٹو کہا جاتا تھا، مار گرایا۔

لیکن ہم سب یہ بھی جا نتے ہیں کہ جب بھارت اور روس نے مل کر مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرنے کے لئے مشترک حکمت عملی بنائی تو ہم سب امریکی مدد کے لئے چھٹے بحری بیڑے کا انتظار کرتے رہے، لیکن اعلان کے باوجود امریکا کا چھٹا بحری بیڑا مدد کو کبھی نہ پہنچا۔ (امریکہ نے یہ اعلان کب کیا؟ اس کا حوالہ دیا جائے۔ چھٹے بحری بیڑے کی اطلاع تو اسلام آباد نے ڈھاکہ بھیجی تھی تاکہ ہارتی ہوئی فوج کا حوصلہ بڑھایا جا سکے۔۔۔ و-مسعود) کیوں کہ وہ خطے میں پاکستان کی خلاف کھیلی جانے والی ایک گریٹ گیم تھی اور اس گریٹ گیم میں سب قوتوں نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ پھر ایک گریٹ گیم ضیا الحق ڈیکٹیٹر کے دور میں کھیلی گئی، جب افغانستان پر قابض روسی فوج کو نکالنا تھا، اس بار امریکی اور مغربی قوتوں کو سوشلزم پھیلنے کا خدشہ ہو گیا، جسے روکنا ان سب کا اولین فریضہ تھا۔

ہم نے ایک بار پھر سر جھکا کر امریکا کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوے، نہ دیکھا کہ یہ جنگ ہمارے مفاد میں ہے یا تباہی کا سبب بنے گی۔ تیسری بار مشرف دور میں بھی ہم نو گیارہ کے بعد امریکا کے سامنے جھک گئے بلکہ گھٹنے ٹیک دیے، کیوں کہ ہمیں پتھر کے دور میں پھینک دینے کی دھمکی ملی تھی، حالاں کہ اب ہم دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن چکے تھے۔

اب دیکھتے ہیں کہ ایک طرف تو امریکا کو افغانستان میں امن کے قیام اور طالبان کو بات چیت کی میز پر لانے کے لئے پاکستان کی مدد درکار ہے تو دوسری طرف ہمیں اقلیتوں کو مذہبی آزادی نہ دینے کا الزام لگا کر اور بلیک لسٹ میں ڈال کر بازو مروڑ کر افغانستان میں گویا کردار ادا کرنے پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، حالاںکہ ہم ویسے ہی امریکا کی مدد کو تیار تھے جیسا کہ ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان نے دو ہزار پندرہ میں طالبان کو مری بلا کر افغان مسئلے کے حل میں سنجیدگی دکھائی، لیکن بات چیت آگے نہ بڑھ سکی، کیوں کہ افغانستان میں بھی کچھ حلقے کسی اور کے مفاد میں کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

لیکن ہمیں اقلیتوں کے حوالے سے اور اپنے گریبان میں ضرور جھانکنا چاہیے کہ ہم ان کے ساتھ کیا کیا سلوک کرتے ہیں۔ ہم انہیں اقلیت کیوں کہتے ہیں؟ کیا یہ ہم سے اور اس ملک کے کم تر شہری ہیں؟ کیا یہ ہم جیسے گوشت پوست کے پتلے نہیں؟ ان کی شکلیں اسی خطے کے دوسرے لوگوں سے سے نہیں ملتیں؟ فرق صرف یہی ہے نا کہ ان کا مذہبی عقیدہ وہ ہے جو ان کے آبا و اجداد کا تھا، ویسے ہی جیسے ہمارا مذہبی عقیدہ، وہ ہے جو ہمارے آبا و اجداد کا تھا۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ امریکا کو فلسطین میں اسرائیلی مظالم نظر نہیں آرہے، نہ ہی اسے کشمیر میں بھارتی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر آتی ہیں اور شاید نہ کبھی نظر آ سکیں۔

میری نظر میں ہمیں طالبان چاہے وہ اچھے ہوں یا برے انہیں ہر صورت میں بات چیت پر آمادہ کرنا چاہے کیوں کہ اس کے بغیر افغانستان میں امن ممکن نہیں، اور جب تک افغانستان میں امن نہیں تو پورا خطہ اس کی لپیٹ میں رہے گا۔ اور قلیتوں کو اپنے گلے لگا کر ہی مدینہ کی ریاست بن سکے گی، ورنہ یہ سب صرف باتیں ہی لگیں گی ہمیشہ کی طرح۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).