آبا کی شاہ خرچیاں برباد کر گئیں


یہ ان دنوں کی بات ہے، جب میں انسٹی ٹیوٹ آف سرامکس گجرات میں پڑھا کرتا تھا، میری کفیل میری والدہ تھیں، جو اسکول میں پڑھایا کرتی تھیں۔ مجھے ایک محدود سا جیب خرچ ملا کرتا تھا۔ صبح انسٹی ٹیوٹ جاتا تھا اور شام کو وہیں کے انڈسٹریل ایریا میں ایک سرامکس فیکٹری میں ’مولڈ‘ بنا کر کچھ کما لیتا۔ یہاں میرا رابطہ مزدور طبقے سے ہوا، جن میں ایک کثیر تعداد کم سِن بچوں اور بالغ بچوں کی تھی۔ ان بچوں کی حیثیت ملازم کی سی نہیں، ایک غلام کی سی ہوتی تھی، شاید اب بھی ایسا ہی ہوتا ہو کہ بقول رحمان حفیظ:

اتنے یک ساں ہیں مری قوم کے سب معمولات
صرف تاریخ سے اخبار بدل جاتا ہے

دس بارہ سال اور بعض اوقات اس سے بھی کم عمر کے بچوں کو انھی کے ماں باپ کارخانے میں چھوڑ جاتے تھے، بدلے میں ایک مخصوص رقم ’ایڈوانس‘ کے نام پر لے لی جاتی تھی۔ سہولت یہ دی جاتی کہ والدین چاہیں تو دیے جانے والی ہفتہ وار اجرت میں سے تھوڑی تھوڑی کٹوتی کروا کر یہ قرض ختم کروا سکتے ہیں۔ چوں کہ معاوضہ اتنا قلیل ہوتا تھا کہ ’کٹوتی‘ مشکل ہوتی، پھر یہ دیکھا گیا ہے کہ کارخانے کے مالک کو اس ’ادھار‘ کی وصولی میں دل چسپی بھی نہ ہوتی۔ اول تو ممکن ہی نہ ہوتا تھا کہ اتنی قلیل اجرت سے کٹوتی کروائی جائے، لیکن کوئی چاہے بھی کہ کٹوتی کی جائے تو فیکٹری کا مالک خوش دلی سے کہتا کہ اسے وصولی کی جلدی نہیں ہے۔ ایسا کیوں تھا؟ اس لیے کہ ایڈوانس لی رقم لوٹا دی گئی تو یہ بچہ بہتر تن خواہ پر کسی دوسرے کارخانے میں جا سکتا ہے۔ اس ایڈوانس ہی کی وجہ سے وہ اپنے آقا کے ناروا سلوک اور کم اجرت کو برداشت کرنے پر مجبور ہوتا تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بچہ ’ہنرمند‘ بن جاتا، تو اس وقت تک مزید قرض چڑھا چکا ہوتا۔ اگر وہ اتنا اچھا کاری گر ہو گیا ہے کہ کسی دوسرے کارخانے کو مطلوب ہے، تو اس کارخانے کا مالک اس کے سر چڑھی رقم ادا کرتا اور پہلی سے ذرا بہ تر تن خواہ پر اپنا ’غلام‘ بنا لیتا۔ شاید آپ یہ پڑھ کر اس درد کو محسوس نہ کر سکیں جو میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر تڑپتا تھا۔ ایسے ہر کردار پر روا رکھے جانے والے ظلم کی کم سے کم ایک داستان ضرور ہوتی ہے۔

کچھ باتیں ہیں جو ہم سنتے ہیں اور پھر حفظ کر لیتے ہیں، ایک وقت آتا ہے وہ ہمارے ایمان کا حصہ بن جاتی ہیں۔ وقت آنے پر ان باتوں کو سوچی سمجھی ’رائے‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ ’چائلڈ لیبر‘ کے بارے میں میرے نظریات ایسے ہی تھے، جیسے کتابوں میں بیان ہوئے ہیں، چوں کہ ہوش سنبھالتے ہی سن رکھا تھا کہ چائلڈ لیبر ظلم کے زمرے میں آتا ہے تو میں نوجوانی کے جوش میں فیکٹری مالکان سے بحث کرنے لگتا کہ ان بچوں کو کیوں بھرتی کیا ہے۔

جب ان ’مجبوروں‘ کو دیکھتا تو اور کچھ نہ سوجھتا، انھیں سمجھانے بیٹھ جاتا کہ تم کیوں کر غلام ہو، اور کیا تدبیر کرو کہ غلامی سے جان چھوٹے۔ میرا زور اسی بات پر ہوتا کہ تمھیں اسکول جانا چاہیے، تعلیم حاصل کرو۔ میری طرح ’باؤ‘ کا سٹیٹس ملے گا۔ ظاہر ہے میری ایسی کتابی باتوں سے ان کے حالات بدلنے سے رہے۔

انھیں سمجھاتے سمجھاتے میں خود یہ سمجھا کہ ان کی نظر سے دیکھوں تو چائلڈ لیبر جرم نہیں بل کہ غنیمت ہے۔ ان کی زبانی انھی کی کہانیاں سن سن کر اور ان کے حالات سے واقف ہو کر یہ شعور حاصل ہوا کہ یہ بچے کام نہ کریں تو ان کے گھر چولھا جلے بھی تو بھیک ملنے پر۔ بھیک سے تو کہیں بہتر ہے، کہ یہ اپنے ہاتھ سے کما کر کھا رہے ہیں۔

چائلڈ لیبر، فیملی پلاننگ اور اس طرح کی تحاریک ان مہذب کہلائے جانے والے معاشروں سے اٹھی ہیں، جہاں ریاست ماں کا کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ایسی ریاستیں شہری کو اکساتی ہیں کہ کم بچے پیدا کریں تا کہ ریاست پر بوجھ نہ پڑے۔ ریاست ہر شہری کو تحفظ دینے کے علاوہ اس کی تعلیم، علاج، روزگار دینے کی پابند ہوتی ہے۔ روزگار نہیں دے پاتی تو بے روزگاری الاؤنس دیتی ہے۔ ایسے میں ریاست کے خزانے پر بوجھ پڑنا فطری سی بات ہے اور ریاست کی طرف سے کیا جانے والا مطالبہ جائز محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے فرائض کو بہ احسن پورا کر سکے۔

ایسے ممالک کی ریاست کی نظر میں ہر شہری برابر کا درجہ رکھتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی وی آئی پی وارڈ میں سرکاری خرچ پر اپنا علاج کروا رہا ہو، اور غریب کا پرسان حال ہی کوئی نہیں کہ اسپتال کی راہ داری میں ایڑیاں رگڑتا مر جائے۔

ایک ایسی ریاست جس کی گلیوں، محلوں، سڑکوں پر کچرے کے ڈھیر ہوں، جسے اٹھانے والا کوئی نہیں۔ فضا میں آلودگی کی شرح خطرناک حدوں کو عبور کر چکی ہو، وہاں کروڑوں چھوڑ اربوں روپے کے اشتہار چلا دیے جائیں کہ تمباکو نوشی آلودگی کا باعث بنتی ہے، پھیپھڑوں کا ستیا ناس مارتی ہے، کینسر کرتی ہے اس سے بچیں، وہاں یہ اشتہار کوئی معنی نہیں رکھتے۔ سیگرٹ پینے والے کے ساتھ جو ہو گا سو ہو گا، فضائی آلودگی میں سانس لینے والے کا کیا حشر ہو رہا ہے، کس کو پروا ہے؟

مہذب ممالک میں تو سیگرٹ پر بھاری ٹیکس اس لیے ہیں کہ ریاست اسی ٹیکس کو تمباکو پینے والے کے علاج پر خرچ کرتی ہے۔ ہمارے یہاں انھی کی دیکھا دیکھی سیگرٹ پر بھاری ٹیکس لاگو کر دیے گے ہیں، لیکن وہ ٹیکس کہاں خرچ ہوتے ہیں اس کا حساب کون لے سکا ہے۔

بڑے شہروں میں پانی کی آلودگی کی رپورٹس سرد خانوں میں پڑے پڑے آلودہ ہو چکی ہیں، صاف پانی کا مطالبہ تو دور رہا، محض پانی کی قلت پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ سرکاری اہل کاروں کی قوم کے مسائل حل کرنے کے اجلاس کی فوٹیج دیکھیں تو میزوں پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بوتلیں نمایاں دکھائی دیں گی اور کارکردگی صفر۔ بہت ہوا تو اس طرح کی تجویز منظور کر لی جائے گی کہ سیل فون کے ہر ری چارج پر دو فی صد ریڈیو لائسنس کی مد میں کٹے گا۔

یہی احوال فیملی پلاننگ کی ناکامی کا ہے۔ تحفظ تو ایک الگ سوال ہے، بیش تر پیدا ہونے والے بچے اور زچہ کے لیے تربیت یافتہ دائیاں ہی میسر نہیں، زچہ خانوں کی بہ تر حالت تو کیا مناسب تعداد بھی ایک لطیفے سے کم نہیں۔

پھر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جو جتنا غریب ہے اس کے بچوں کی تعداد اتنی ہی زیادہ ہے، میرا مشاہدہ یہ رہا ہے کہ غریب کا ہر بچہ اس کے لیے کمانے والا ایک فرد ہے۔ گھر میں جتنے کماؤ پوت ہوں گے، سب کما کر لائیں گے، حتا کہ ایک بھکاری کے جتنے بچے ہیں، اتنے ہی ہاتھ بھیک مانگنے کے لیے اٹھیں گے اور اتنے ہی ہاتھ بھیک لائیں گے۔

منظر یوں ہے کہ پندرہ سال کی بیٹی کی شادی کرنے کے لیے کارخانے والے سے ’ایڈوانس‘ لے کر دس بارہ سال کے بچے کو ’بیچ‘ دیا گیا۔ ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ پندرہ سال کی بیٹی کا کھانا پینا کپڑا لتا کسی دوسرے کی ذمہ داری بن گیا، دوسرا یہ کہ اولاد محنت مزدوری پر لگ گئی۔ بائیس تئیس سال کی عمر تک وہ نوجوان اپنے باپ کو دیا گیا ایڈوانس اپنے سر سے اتار بھی دے تو اب اسے اپنی شادی کے لیے قرض چاہیے ہوتا ہے۔ اب وہ بچے پیدا کرتا ہے، انھیں کسی آقا کے حوالے کر کے گھر کی ٹوٹی چھت مرمت کروا لیتا ہے۔ باپ کی طرح نشے کا عادی ہو گیا ہے تو گھر بیٹھا اولاد کی تن خواہ کا انتظار کرتا ہے، جو مزدور بچے کو نہیں دی جاتی اس کے نکمے باپ کے ہاتھ پر رکھی جاتی ہے۔ یہ مجبوریوں کا ایسا چکر ہے کہ پس ماندہ طبقہ اس دائرے کو توڑ ہی نہیں پاتا۔

ایسوں کو ذلت سے نجات دلوانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ کئی عبدالستار ایدھی مل کر وہ کام نہیں کر سکتے، جو ریاست محض چند عملی اقدامات اٹھا کر کر سکتی ہے۔ چائلڈ لیبر کے خلاف قوانین اپنی جگہ پر ہیں، جب تک غریب کی داد رسی نہ ہوگی، قوانین غیر موثر ہی رہیں گے۔ حکومت کی شاہ خرچیاں بڑھتی جائیں گی، تو ریاست کے بچے گروی رکھے جاتے رہیں گے۔

آبا کی شاہ خرچیاں برباد کر گئیں
گروی رکھے ہوئے ہیں ہم آیندہ کل کے پاس
(نسیم سحر)

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran