تقدیس کے کھوکھلے معیار اور سچائی کا انکار


نجی مواصلاتی کمپنی کے اشتہار میں جو چیز ہمیں گراں گزری وہ یہ ہے کہ اولاد کو والدین کی نافرمانی پہ اکسایا جا رہا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے۔!

ہم اس اشتہار میں یہ دریافت کرنے سے کیوں قاصر ہیں کہ والدین کی ایک بھیانک غلطی کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔ ؟

عرض یہ ہے !

اسٹیفن مارکووے نے لکھا کہ ہر بچہ زندگی کے چودہ شعبوں میں سے کسی ایک میں پیدا ہوتا ہے۔ ہم اکثر طب کے شعبے میں پیدا ہونے والے بچے کو دفاعی شعبے میں ڈال دیتے ہیں جس کے نتائج منفی نکلتے ہیں۔ اسٹیفن نے ہی کہا تھا کہ

’’اکثر ہمارے ہاں نوجوان جسے ہابیز کہتے ہیں، دراصل وہی ان کا پیشہ ہوتا ہے جو والدین کی خواہشات کی نذر ہوچکا ہوتا ہے‘‘

اسٹیفن کی اس سچائی کے ساتھ اب ذرا ممتاز مفتی کا یہ جملہ رکھ کر دیکھیں

’’زندگی کی سب سے بڑی عیاشی یہ ہے کہ آپ کا شوق آپ کا ذریعہ معاش بن جائے‘‘

دیکھیں۔!

باقی دنیا کو ایک طرف رکھ دیں۔ آپ ایک نظر اپنے خاندان پر ڈال لیں۔ آپ کو ایسے بے شمار بچے مل جائیں گے جو حافظ قران ہیں مگر ہزار نصیحتوں کے باوجود بھی قران کو پشت کیے بیٹھے ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جنہیں نانی کی خواہش پہ زبردستی حافظ قرآن بنایا گیا۔ آپ کو ایسے افراد مل جائیں گے جو وابستہ تو سول انجینییرنگ سے ہیں مگر طبی امور سے متعلق غیر معمولی معلومات رکھتے ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جسے ڈاکٹر بننا تھا مگر چونکہ باپ انجینئیر تھا اس لیے ان کو بھی انجینئیربننا پڑا۔ کچھ گھڑی ساز مل جائیں گے جو آرٹ میں کچھ ایسے یگانہ ویکتا ہوتے ہیں کہ دل کہہ اٹھتا ہے یہ مٹی ذرا جو نم ہوتی تو زرخیز بہت ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو انہوں نے کرنا چاہا وہ والدین نے کرنے نہیں دیا اور جو والدین نے ان سے کروانا چاہا وہ قلبی و ذہنی میلان نہ ہونے کی وجہ سے کر نہ سکے۔ بت کدے و میکدے کے بیچ یہ رسوا ہوکر رہ جاتے ہیں۔ صنم اور خدا دونوں سے ہی ہاتھ دھو بیٹھنے والے یہ افراد آخر کو گھڑی ساز خوانچہ فروش اور منشی ہوجاتے ہیں۔ کبھی آپ کو ارشد خان سے ملواوں گا جو صبح اخبار بیچتا ہے دن میں ایک مزدا ویگن پر روک استاد، جانڑ دے استاد اور ڈبل اے استاد کرتا ہے، مگر لکھتا ہے تو ایسا لکھتا ہے کہ آپ کا ذوق خطا کر کے رکھ دے۔ گاتا ہے تو ایسا گاتا ہے کہ طبعیت عش عش کر اٹھے۔ کیا یہ ایک ہی مثال ہے؟ ایسی لاکھوں صلاحیتیں ہیں، دیکھیے تو سر دھننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

حضور!

کوئی انسان کسی شعبے میں بھی ماہر نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ کچھ تو ایسا ہے جسے سر انجام دینے کیلیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔ لیکن جب وہ ان معرکوں میں ناکام ٹھہرتا ہے جن میں اسے بزرگوں نے جھونکا ہوتا ہے، ہم اسے نالائق کہہ کر گھر کا ناکارہ پرزہ قرار دے دیتے ہیں۔ وہ شخص جو خود کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کے خلاف مزاحمت شروع کر دیتا ہے اسے والدین کا نافرمان کہہ دیا جاتا ہے۔ والدین کی اطاعت گزاری سے کس کافر کو انکار ہوسکتا ہے، مگر اس اطاعت گزاری کی حدود کا تعین بھی تو تہذیب ہی کا تقاضا ہے۔ یعنی آپ کی زوجہ اور والدہ کے بیچ کوئی تلخی پیدا ہوجائے، غلطی والدہ ہی کی ہو، روایت یہ ہے کہ زوجہ پہ تشدد کیجیئے۔ لڑکی کیلیے ابا حضور نے اپنے بھائی کے بیٹے ڈھونڈ رکھے ہیں، لڑکی کو یہ چچا زاد ایک آنکھ نہیں بھا رہے، روایت یہ ہے کہ اس لڑکی کو صحبتِ بد کی پروردہ قرار دے دیجیئے۔ بیٹے کو آرٹ سے رغبت ہے، باپ تدریس کروانا چاہتا ہے، تدریس اس کے بس کی بات نہیں سو وہ نہیں کرتا، روایت یہ ہے کہ اسے والدین کا نافرمان قرار دے دیجیئے۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ یہ تقدیس و اطاعت کے کون سے معیارات ہیں؟ ہمارے کتنے المیے ہیں جو تقدیس کی ان دیواروں تلے دب گئے اور کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ ہماری کتنی صلاحیتیں ہیں جو اطاعت کے اس یک رویہ تصور کے بھینٹ چڑھ چکی ہیں، مگر ہم ہاتھی کے کان میں سورہے ہیں۔ کیا ہم دیکھ نہیں رہے کہ ہر دوسرے گھر میں ایک دو افراد کی صلاحیتیں کس قدر بے سمت ہوئی پڑی ہیں؟ کتنے رشتے ہیں جو مجبوری میں قائم ہیں۔؟ اس غیر فطری روایت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ہماری خفیہ سرگرمیوں میں کیا عقلمندوں کے لیے ایک بھی نشانی نہیں ہے؟

بھائی میرے!

ہمیں پیدا ہونے والے کچھ دیگر اخلاقی بحرانوں کا تجزیہ کرنا ہے۔ بزرگ علمائے کرام و مشائخ عظام میں اٹھارہ سال کی کنیا کنواری بچیوں سے شادی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ یہ شرعی طور پہ ناجائز نہ سہی، مگر بدترین اخلاقی جرم ضرور ہے۔ کبھی اس رجحان کا نفسیاتی تجزیہ کر کے دیکھا ہے؟ تقدیس کے بالا خانوں میں ہم جنس پرستی کا رجحان سب سے زیادہ غالب ہے۔ کبھی اسباب وعوامل پہ غور کیا؟ والدین اوراوراولاد کے بیچ خلیج اس قدر بڑھتی چلی جارہی ہے کہ پاٹنے میں نہیں آتی۔ لڑکیوں میں بغاوت کے آثار اتنے نمایاں ہوچکے کہ چھپائے نہیں چھپتے۔ نئی پود جو اسکول کی تعلیم ختم کرکے کالج کی طرف جارہی ہے گھٹن کی شکار ہے۔ جو یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں وہ اپنے شہر میں ہوتے ہوئے بھی ہاسٹل میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ میں انتہائی محتاط بھی اگر رہوں تو نصف سے کہیں زیادہ نوجوان خفیہ طور پر ان غیر نصابی سرگرمیوں میں مصروف ہیں جو دراصل ان کی نصابی سرگرمیاں ہونی چاہیئے تھیں۔ کیا کوئی اس کا تجزیہ کرے گا؟ میڈیا کے علاوہ بھی کچھ ایسا ہے کہ جسے ہم نے الزام دیا ہو؟ مشکل یہ ہے کہ ان سارے معاملات کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاری کی طرف آپ بزرگوں کو توجہ دلائیں تو بھی آپ ہی نافرمان کٹ حجت اور ہٹ دھرم قرار پاتے ہیں۔ اس سے بڑی مشکل یہ ہے کہ جن مشکلات کو ہم بھگتتے ہیں، وہی مشکلات پھر ہم آگے اپنی اولاد کے کندھوں پہ رکھ دیتے ہیں۔ فیا للعجب۔!

آخری تجزیئے میں۔!

بغاوت کا عنصر تو اب ویسے بھی غالب آرہا ہے، مگر یوں بھی ہر کوئی روایات کا احترام نہیں کرتا۔ کچھ لوگ بغاوت کرجاتے ہیں، مگر اقربا جھولی پھیلا کر دعا مانگتے ہیں کہ یہ ناکامی کا منہ دیکھے، تاکہ بدھو لوٹ کے گھر کو آئے تو ہم اس کی عزت کا کریا کرم کریں۔ وہ جانتے نہیں کہ باغی لوٹتے نہیں ہیں۔ نئے صبح و شام پیدا کرتے ہوئے اس بچے کو ٹھوکر لگ جائے تو سارا خانوادہ بغلیں بجاتا ہے، دو قدم آگے بڑھیئے تو اس کامیابی کے گرد افواہوں کا طومار کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ کل کلاں جب وہ باغی بچہ یا بچی اپنی کامیابی ثابت کر کے دکھا دیتا ہے تو خانوادے کو صلہ رحمی یاد آجاتی ہے، سبھی تھپکی دینے پہنچ جاتے ہیں۔ ہر دوسرا نابغہ آگے بڑھ کر اس کامیابی کا سہرا اپنے سر لینے کو اتاولا ہوا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اسی نافرمان اور ناخلف بچے یا بچی کی نسبت سے اپنا تعارف کرواتے ہیں۔ یہی اشتہار میں بھی دکھایا گیا جو کہ سامنے کا سچ ہے۔ اگر انجام کار یہی ہے تو پھر ہمیں بطور والدین یہ سوچنا ہوگا کہ ہم سے کہیں تو غلطی ہوئی ہے۔ اس غلطی کا احساس مگر تب ہوگا جب ہم تقدیس کے غلاف سے کچھ دیر کیلیے باہر نکل آئیں۔ آپ چند لمحوں کے اشتہار کو روتے ہیں، ہم تو کہتے ہیں اس المیے پہ مقامی ڈرامہ نویسوں اور فلم نویسوں کو ڈرامے اور فلمیں لکھنی چاہیئں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments