زرد بیج ہوں اور سبز ہونا چاہتا ہوں


پاکستان میں حال میں قائم ہونے والی وفاقی حکومت سے مایوس ہونے والے وہ ہیں جن کو ان سے تبدیلی کی امید تھی، سچ مگر یہ ہے کہ جن کو امید نہیں تھی ہکا بکا وہ بھی بیٹھے ہیں کہ ہو گا کیا۔ قومی اسمبلی میں ابھی تک سٹینڈنگ کمیٹیوں کے قیام سے محروم ہے کام کیا ہو گا۔ پارلیمانی امور کے وفاقی وزیر بھی اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہیں کہ قومی اسمبلی، اس وقت ایک ڈیبیٹنگ کلب کے سوا کچھ نہیں۔ کرپشن کے خلاف کارروائی پر کون اعتراض کرے گا مگر صدر مملکت کے عہدے پر براجمان شخص اگر سانحہ مشرقی پاکستان کی سب سے بڑی وجہ کرپشن کو قرار دے، بد انتظامی، مارشل لا اور وعدہ خلافیوں کو نہیں تو پھر سوال پیدا ہو گا کہ ہم میں اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی صلاحیت موجود ہے بھی یا نہیں۔

حال یہ ہے کہ احتساب کی گونج میں خوف کی فضا بنا دی گئی ہے جس سے بیوروکریسی ہو یا عام کاروبار سب دبکے بیٹھے ہیں۔ حکومت کا اپنا احتساب اپنی جگہ اور سپریم کورٹ کا خوف اپنی جگہ۔ یہاں کاروبار چلے تو کیسے۔ سادہ مثال سے وضاحت کروں کہ آپ کوئی دکان کھولنا چاہتے ہوں تو قیمت علاقے کے اعتبار سے طے ہو گی، غور کریں یہ علاقوں کا فرق، قیمت کے فرق کی وجہ کیوں بنتا ہے۔ صاف ستھرا، پر امن علاقے میں قیمت کیوں زیادہ ہوتی ہے اور غلیظ راستوں پر قائم بازار جہاں ہر وقت گولیاں چلتیں ہوں، میں قیمت کیوں کم ہوتی ہے۔

یہاں کوئی سرمایہ کاری کرے تو کیوں، پھر بھی یہاں کاروبار اگر ہوتا ہے تو اس کی بنیاد بے پناہ لوٹ مار کی کھلی اجازت کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے اور یہ ہی ہو رہا ہے۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے پاس 156 نشستیں ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن کے پاس 85، پیپلز پارٹی کے پاس 54، ایم ایم اے کے پاس 16 نشتیں ہیں جو ملا کر 155 بن جاتی ہیں۔ یعنی پی ٹی آئی کی اپنی اکثریت محض ایک ووٹ سے یے، اب اس میں دو ناراض ارکان محسن داوڑ اور علی وزیر کو منفی کردیں تو کچھ بھی نہیں بچتا، تحریک انصاف کے ساتھ اتحادی مسلم لیگ کے پاس 5، بی این پی کے 4، آزاد 4، بلوچستان عوامی پارٹی یا باپ کے پاس 5، اور ایم کیو ایم کے پاس 7 نشستیں ہیں۔

 یہ سب ایک اشارے کے منتظر ہوتے ہیں اور ہوا کا رخ دیکھ کر چلتے ہیں لہذا ان پر قائم ہوئی اکثریت کتنی پائیدار ہے خود اندازہ لگا لیں۔ عرض یہ ہے کہ جس کشتی کے آپ اور میں سوار ہیں اس کے ملاحوں میں کشیدگی اترتی دکھائی دے رہی ہے۔ سمندر کا مزاج غیر یقینی ہے، طوفانی ہوائیں چل رہی ہیں آنے والے موسموں کا پتہ دینے والے آلات معینہ مدت پوری کر چکنے کے باعث کچھ واضح اطلاع دینے سے قاصر ہیں۔ غریب اور امیر کا فرق تو ہمیشہ سے تھا اور رہے گا مگر غریب کو اپنی غربت اور امیر کی خوشحالی کا جتنا گہرا احساس آج ہے اس سے پہلے اس طرح سے کبھی نہیں تھا کیونکہ پہلے، قلعوں اور محلات کے اندر کی آسائشیں اور خوشحالی کے جزیرے، اکثریت کی آنکھوں سے اوجھل تھے، اب سامنے ہیں۔

جس فرق نے صدیوں کے جمے جمائے ترقی یافتہ معاشروں کی چولیں ہلا دیں ہیں اس سے ہم کس وقت تک بچ پائیں گے اس کا پتہ تو پیر صاحبان کے علم میں ہوگا جن کی روحانی تربیت اور علم سے موجودہ وزیر اعظم فائیدہ اٹھاتے ہیں، یہ عامی بس اتنا جانتا ہے کہ موجودہ حالات کے نتیجے میں جلد یا بدیر اس معاشرے کے میں سماجی دھماکوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اس کے سد باب کے لئے اپنے پاس دم درود کے سوا کچھ نہیں۔ چلیں چھوڑیں اس بحث کو، سعود عثمانی کو یاد کرتے ہیں۔

میں زرد بیج ہوں اور سبز ہونا چاہتا ہوں

میری زمیں تری مٹی کا مشورہ کیا ہے

یہ میری کاغذی کشتی ہے اور یہ میں ہوں

خبر نہیں کہ سمندر کا فیصلہ کیا ہے

بکھر رہا ہوں تری طرح میں بھی اے زر گل

سو تجھ پوچھتا ہوں تیرا تجربہ کیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2