ہم نواز شریف کو کیسے سچا مان لیں؟ نیب کورٹ کے جج ارشد ملک


اسلام آباد: احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے العزیزیہ ریفرنس میں ریمارکس کے دوران کہا کہ سپریم کورٹ نے ڈیکلیئر کیا کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں ہیں، اعلیٰ عدالت کے فیصلے کے بعد ہم یہاں انہیں کیسے سچا مان لیں، خواجہ حارث اس نکتے پر عدالت کو مطمئن کریں۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے دوران ان کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل پر نیب کی جانب سے جوابی دلائل دیے گئے۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر عباسی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ خواجہ حارث کے حتمی دلائل اور نواز شریف کے بیان میں تضاد ہے، نواز شریف نے 342 کے بیان میں حسن، حسین نواز کی طرف سے پیش دستاویزات تسلیم کیں، ملزمان اثاثوں کو مانتے ہیں، ہم نے تحویل کو بھی ثابت کردیا ہے۔

سردار مظفر عباسی نے کہا کہ ملزمان کہتے ہیں کہ ہم پر کرپشن کا الزام نہیں، نیب آرڈیننس کی سیکشن نائن اے ہے ہی کرپشن سے متعلق، جلاوطنی کے دور میں شریف خاندان کے افراد سعودی عرب میں اکٹھے تھے، جب یہ وہاں ایک ساتھ تھے تو اب کیسے کہہ سکتے ہیں کہ انہیں العزیزیہ اسٹیل کے قیام کا علم نہیں۔

سردار مظفر عباسی نے کہا طارق شفیع کے میاں شریف کے بے نامی دار ہونے کا ثبوت نہیں، ملزمان کے موقف سے ظاہر ہوتا ہے 70 کی دہائی میں بھی ان کے بے نامی دار تھے۔

نیب کو جو کہنا ہے آج ان کی سنیں گے : جج ارشد ملک

سماعت کے دوران نواز شریف کے وکلا کی مداخلت پر جج ارشد ملک نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن نیب کا ہے، نیب کو جو کہنا ہے آج ان کی سنیں گے، خواجہ حارث نے جتنے دن دلائل دیے اس دوران نیب نے مداخلت نہیں کی۔

سردار مظفر عباسی نے جواب الجواب میں مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد نیب نے آزادانہ طور پر کیس کی تحقیقات کیں، واجد ضیاء نیب کے افسر نہیں تھے، چیئرمین نیب نے انہیں کسی انکوائری کا اختیار نہیں دیا، واجد ضیاء تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہوئے اور عدالت میں ہمارے اسٹار وٹنیس تھے۔

جج ارشد ملک نے کہا کہ خواجہ حارث کی طرف سے پیش قانونی حوالے اپنے ساتھ لے کر گیا اور رات ایک بجے تک ان کے پیش کردہ قانونی حوالوں کا مطالعہ کرتا رہا، مجھے جو فیصلہ لکھنا ہے، اس کے لیے ان تمام حوالوں کو پڑھنا ضروری ہے، آپ نے جو عدالتی نظیریں پیش کرنی ہیں انہیں بھی آج پڑھوں گا۔

سماعت کے دوران نیب کی طرف سے بار ثبوت اور زیر کفالت ہونے کے مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے بھی پیش کیے گئے، سردار مظفر عباسی نے کہا جے آئی ٹی رپورٹ کیس سے متعلقہ ہے اور یہ تفتیشی افسر کی رپورٹ نہیں۔

نیب نے اپنی ذمہ داری پوری کردی اب بار ثبوت ملزمان پر ہے : پراسیکیوٹر نیب

سردار مظفر نے کہا کہ نواز شریف نے اپنی تقاریر میں کہا کہ دستاویزات اور ریکارڈ موجود ہے اور متعلقہ فورم پر ریکارڈ پیش کر دیں گے، اس سے ظاہر ہوتا ہے نواز شریف کو ان تمام معاملات کے بارے میں خاص علم ہے، ہمارا کیس ثابت کرنے کے لئے تمام عناصر ملزمان نے خود پورے کردیے، نیب نے اپنی ذمہ داری پوری کردی اب بار ثبوت ملزمان پر ہے۔

سردار مظفر عباسی نے کہا ملزمان کو بتانا ہے کہ اثاثے کیسے بنائے گئے جس پر جج ارشد ملک نے سوال کیا اس کیس میں تو نوازشریف بچوں کے زیر کفالت ہیں جس پر پراسیکیوٹر نیب نے کہا کیس کے مطابق بچوں کی طرف سے نوازشریف کو پیسے بھیجے گئے، والد بچوں کے فطری گارڈین ہوتے ہیں، نوازشریف کو ثابت کرنا تھا کہ ان کے بچے دادا کے زیر کفالت تھے۔

پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ ملزمان کا موقف ہے کہ حسن اور حسین نواز عدالت کے سامنے موجود نہیں، مفرور ملزمان کا ٹرائل ان کی عدم موجودگی میں ہورہا ہے، پراپرٹی کسی تیسرے شخص کے نام پر نہیں بلکہ نوازشریف کے بچوں کے نام ہے۔

سردار مظفر نے کہا کہ ہمارے کیس بے نامی کا ہے، اس میں براہ راست شواہد نہیں ہوتے، بے نامی دار کی تعریف میں بھی یہی ہے کہ فائدہ کسے پہنچ رہا ہے اور ریکارڈ کے مطابق نواز شریف، مریم نواز کو ایچ ایم ای سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔

حسین نواز نے اپنے انٹرویو میں خود کہا کہ میری تمام جائیداد میرے والد کی ہے : سردار مظفر عباسی

پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ تمام چیزیں نواز شریف کو اثاثوں سے جوڑ رہی ہیں، غنی الرحمان کیس میں بے نامی داروں کو شریک ملزم نہیں بنایا گیا تھا، حسین نواز نے اپنے انٹرویو میں خود کہا کہ میری تمام جائیداد میرے والد کی ہے، نیب اور عدالت کی طرف سے حسین نواز بارہا بار بلایا گیا لیکن وہ پیش نہیں ہوئے۔

سردار مظفر عباسی نے کہا حسین نواز کے پاس دفاع میں پیش کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا اس لیے حاضر نہیں ہوئے، وہ اپنے والد کے بے نامی دار ہیں اور والد کو ریسکیو کرنے نہیں آئے۔

جج ارشد ملک نے ریمارکس میں کہا حسین نواز آکر قربانی دیتے جس پر نواز شریف کے وکیل نے مداخلت کرتے ہوئے کہا پراسیکیوٹر قانون کی بات کریں، ہم نے اس فیصلے کو حوالہ نہیں دیا جو یہ پیش کررہے ہیں۔

سردار مظفر عباسی نے کہا کہ نواز شریف نے قوم سے خطاب میں کہا کہ وہ چند بنیادی حقائق سامنے رکھنا چاہتے ہیں، بنیادی حقائق کا مطلب ہے کہ نوازشریف کو سارے کاروبار کے بارے میں علم تھا، نوازشریف نے کہا کہ کرپشن یا ناجائز ذرائع سے دولت بنانے والے اپنے نام پر اثاثے اور کمپنیاں نہیں رکھتے۔

ہمارا نکتہ یہی ہے کہ کرپشن کے پیسے سے دولت بنانے والے اپنے نام پر اثاثے نہیں رکھتے : پراسیکیوٹر نیب

جج ارشد ملک نے سوال کیا تو آپ کیا کہتے ہیں کہ وہ اعتراف کررہے ہیں؟ جس پر پراسیکیوٹر نیب نے کہا ہمارا نکتہ یہی ہے کہ کرپشن کے پیسے سے دولت بنانے والے اپنے نام پر اثاثے نہیں رکھتے۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا یہ تو وہی بات ہے کہ نماز کے قریب مت جاؤ، لیکن اگلی بات نہیں پڑھتے کہ جب تم نشے کی حالت میں ہو جس پر سردار مظفر نے کہا نواز شریف نے پورے ہوش و حواس میں قوم سے خطاب کیا اور اپنی خطاب میں اپنے خاندان کی ذمہ داری لی اور کہا کہ ٹھوس ثبوتوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔

جج ارشد ملک نے کہا کہ اب رفقاء کی بات آگئی ہے، وہاں پر رفقاء نے کہا کردو تو نواز شریف نے کہہ دیا، اب رفقاء نے کہا ہوگا کہ نہ کرو تو انہوں نے نہیں کی۔

اس کیس میں کام ایسے کیا جارہا ہے کہ میرا نام کہیں بھی نہ آئے : جج ارشد ملک

جج ارشد ملک نے مزید کہا خواجہ حارث سول مقدمات والے چار عناصر کی بات کرتے ہیں، میں نے انہیں کہا تھا کہ سول مقدمات والے چار عناصر مختلف ہیں، سول مقدمات میں تو اصل مالک اپنے پاس ریکارڈ رکھتا ہے تاکہ وقت پر اپنی ملکیت ثابت کرسکے، اس کیس میں تو کام ایسے کیا جارہا ہے کہ میرا نام کہیں بھی نہ آئے۔

سردار مظفر عباسی نے کہا جو ٹھوس ثبوتوں کے انبار لگے تھے وہ عدالت میں پیش کیوں نہیں کیے گئے، وہ ثبوت کہاں ہیں، عدالت میں پیش نہیں کرنے تو اور کہاں کریں گے، اب ثبوت پیش کرنے کا وقت آیا تو کہتے ہیں کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں۔

جج ارشد ملک نے کہا کیا نواز شریف کی تقریر کو سیاسی تقریر نہیں سمجھا جائے گا جس پر پراسیکیوٹر نیب نے کہا اس تقریر کو سپریم کورٹ نے بھی سیاسی تقریر نہیں مانا، نوازشریف نے کہا کہ دبئی اور جدہ کی فیکٹریوں کے حوالے سے سارا ریکارڈ موجود ہے، تقریر میں یہ نہیں کہا کہ میرا پراپرٹی سے کوئی تعلق نہیں۔

سردار مظفر عباسی نے کہا نواز شریف نے کہا کہ میرا پاناما پیپرز میں نام نہیں، ان کا پراپرٹی سے تعلق تھا اس لیے تو وضاحت دینا ضروری سمجھا جب کہ سپریم کورٹ میں نوازشریف نے یہ موقف لیا کہ میرا پراپرٹی سے کوئی تعلق نہیں۔

دورانِ سماعت نیب پراسیکیوٹر نے استدعا کی کہ اس ریفرنس پر حکم جاری کرنے سے متعلق تاریخ رکھ لیں، اس پر جج ارشد ملک نے کہا کہ العزیزیہ ریفرنس میں ابھی سوال و جواب کا ایک سیشن رکھیں گے، ابھی پہلے فلیگ شپ پربحث ہوگی، فیصلے بعد میں ایک ساتھ ہوں گے۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہماری گزارشات مکمل ہیں فیصلہ محفوظ کرلیں، جج نے کہا کہ ابھی ریکارڈ کا جائزہ لے کرکچھ سوالات میں بھی فریقین سے پوچھوں گا۔

العزیزیہ ریفرنس میں حتمی دلائل اور جواب الجواب مکمل کرلیے گئے جس کے بعد نے مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔
بشکریہ جیو نیوز۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).